کسانوں سے زیادہ گاڑیوں، صنعتوں، تعمیراتی کاموں اور پاور پلانٹوں پر لگام لگانا ضرورت : سپریم کورٹ

نئی دہلی، نومبر ۔ سپریم کورٹ نے پیر کو ایک بار پھر دہلی حکومت کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ دہلی میں فضائی آلودگی کی خطرناک حالت کے لئے کسان بڑی وجہ نہیں بلکہ صنعتی یونٹ، پاور پلانٹ اور گاڑیاں خاص طور پر ذمہ دار ہیں اور مرکزی حکومت 24 گھنٹے میں تمام متعلقہ ریاستوں کی ہنگامی میٹنگ بلا کر آلودگی کو کم کرنے کے لیے ’ورک فرام ہوم‘سمیت فوری طور پر سبھی اقدامات یقینی بنانے کا بندوبست کرے۔چیف جسٹس این۔ وی رمن اور جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ اور جسٹس سوریہ کانت نے اسکولی طالب علم آدتیہ دوبے کی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے کہا کہ دہلی، اتر پردیش، ہریانہ اور پنجاب حکومتوں کے چیف سکریٹریوں کی فضائی آلودگی کو کم کرنے کے معاملے پر فوری طور پرمیٹنگ طلب کی جائے اور احتیاطی تدابیر کو نافذ کرنے کا انتظام کیا جائے۔اس ہدایت کے ساتھ، سپریم کورٹ نے کہا کہ وہ اس معاملے کی اگلی سماعت 17 نومبر کو کرے گی۔سپریم کورٹ نے تمام غیر ضروری تعمیراتی کاموں کو فوری طور پر معطل کرنے اور متبادل انتظامات کے ساتھ بجلی پیدا کرنے والے پلانٹس کو عارضی طور پر بند کرنے اور دہلی اور ملحقہ شہروں میں ملازمین کے لیے ورک فرام ہوم کے نظام کو نافذ کرنے کا مشورہ بھی دیا۔بنچ نے کہا کہ ہریانہ اور پنجاب کے کسانوں کی طرف سے پرالی جلانے کے معاملے کو اٹھا کر دارالحکومت دہلی میں فضائی آلودگی میں اضافے کا بار بار شور مچایا جاتا ہے، لیکن اب حکومت کی رپورٹ سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ اس کی بڑی وجہ پرالی جلانا نہیں بلکہ سڑکوں پر دوڑنے والی لاکھوں گاڑیاں، دہلی اور آس پاس کے شہروں میں بڑے پیمانے پر عمارتوں اور دیگر تعمیراتی کاموں کی دھول اور بجلی پیدا کرنے والے پلانٹ ہیں جو آلودگی میں 74 فیصد حصہ ڈالتے ہیں۔ پرالی جلانے سے صرف 10 فیصد آلودگی کی بات رپورٹ میں کہی گئی ہے۔سپریم کورٹ نے تاہم ہریانہ اور پنجاب حکومتوں سے کہا کہ وہ اپنے کسانوں کو کم از کم دو ہفتوں تک پرالی جلانے سے روکنے کے لیے فوری طور پر ضروری انتظامات کریں۔سالیسٹر جنرل تشار مہتہ نے سماعت کے دوران ان رپورٹوں کا حوالہ دیا کہ صرف 10 فیصد آلودگی پرالی جلانے سے ہوتی ہے۔اس پر جسٹس سوریہ کانت نے کہا کہ جب پرالی جلانا آلودگی میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ نہیں ہے تو پھر دہلی حکومت کسان کے تعلق سے اتنا شور کیوں مچا رہی ہے۔جسٹس چندر چوڑ نے حکومت کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ آلودگی کی خطرناک حالت تک پہنچنے کے لیے بڑی تعداد میں گاڑیاں، صنعتی یونٹ اور تعمیراتی کام اور دیگر وجوہات سے بڑھنےوالی دھول خاص طور پر ذمہ دار ہیں۔جسٹس رمن نے دہلی حکومت کے 26 صفحات پر مشتمل حلف نامہ پر حکومت کے وکیل راہل مہرا سے کہا کہ وہ حلف نامہ ک بات چھوڑ کر یہ بتائیں کہ سڑکوں کی صفائی کرنے والی کتنی مشینیں ہیں۔ صرف 69 مشینیں ہونے پر جسٹس نے سوال کیا کہ کیا یہ کافی ہیں؟ مسٹر مہرا نے کہا کہ دہلی میونسپل کارپوریشن سے پوچھا جائے کہ اس کے پاس کتنی مشینیں ہیں۔ تب بنچ نے کہا کہ میونسپل کارپوریشن کے پاس اپنے ملازمین کی تنخواہ ادا کرنے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ ہمارے پاس اس سے متعلق بھی معاملے ہیں۔ ایسے میں عدالت اس بات پر بھی غور کر سکتی ہے کہ آلودگی کو کم کرنے کے لیے رقم کا استعمال کیسے اور کن طریقوں سے کیا جا رہا ہے۔سپریم کورٹ نے ہفتہ کو پچھلی سماعت کے دوران تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ملک کی راجدھانی میں فضائی آلودگی کی صورتحال تشویشناک حالت میں پہنچ گئی ہے۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ سیاست اور حکومت کی حدوں سے اوپر اٹھ کر فوری طور پر ایسے ٹھوس اقدامات کیے جائیں کہ دو تین دن میں آلودگی ہر صورت کم ہو جائے۔عدالت کے اس تبصرے کے بعد دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال نے افسران اور متعلقہ وزیر کے ساتھ میٹنگ کر کے کئی اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ دہلی حکومت نے اسکولوں اور دیگر تعلیمی اداروں کو ایک ہفتے کے لیے بند کرنے کا حکم دیا تھا اور ساتھ ہی سرکاری ملازمین کوورک فرام ہوم کرنے کا حکم دیا تھا۔ اس کے علاوہ پرائیویٹ اور دیگر اداروں کو بھی اس سلسلے میں اسی طرح کے اقدامات کرنے کا مشورہ دیا گیا تھا۔سپریم کورٹ سے بھی کہا گیا کہ وہ صورتحال سے نمٹنے کے لیے لاک ڈاؤن کے اقدامات پر غور کرے۔آج دہلی حکومت نے ایک حلف نامہ داخل کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ لاک ڈاؤن کو مکمل طور پر نافذ کرنے کے لیے تیار ہے۔سنیچر کو سماعت کے دوران بنچ نے کہا تھا کہ فضائی آلودگی کی سنگین صورتحال کی وجہ سے ہم اپنے گھروں میں بھی ماسک پہننے پر مجبور ہیں۔سپریم کورٹ نے 17 سالہ طالب علم آدتیہ دوبے کی مفاد عامہ کی عرضی پر کئی بار سماعت کرچکی ہے۔ اس دوران دہلی حکومت کی طرف سے بار بار کہا گیا کہ پنجاب اور ہریانہ میں پرالی جلانے کی وجہ سے دارالحکومت دہلی میں آلودگی کی صورتحال سنگین ہو گئی ہے۔ مسٹر مہتہ نے پرالی جلانے سے روکنے کے طریقوں کے لئے کسانوں کو مشینوں کی خریداری میں دی جانے والی سبسڈی اور دیگر اقدامات کے بارے میں بتایا تھا۔سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ مستقل حل کے معاملے پر بعد میں غور کیا جائے گا۔ فی الحال، توجہ اگلے چند دنوں میں آلودگی کی سنگین صورتحال سے نمٹنے پر مرکوز ہونی چاہیے۔

 

Related Articles