لکھیم پور سانحہ : سپریم کورٹ نے پھر لگائی اترپردیش حکومت کو پھٹکار
نئی دہلی، اکتوبر۔ ملک کی عدالت عظمیٰ نے لکھیم پور کھیری قتل عام معاملہ میں پیر کو ایک بار پھر اتر پردیش حکومت کو پھٹکار لگائی اور کہا کہ وہ اب تک کی تحقیقات سے مطمئن نہیں ہے اور وہ چارج شیٹ داخل ہونے تک ہائی کورٹ کے رٹائرڈ جج کی نگرانی میں انکوائری کروانا چاہتی ہے۔چیف جسٹس این وی رمن ، جسٹس سوریہ کانت اور ہیما کوہلی کی ڈویژن بنچ نے پی آئی ایل کی سماعت کرتے ہوئے حکومت کی ایس آئی ٹی جانچ کو ’ڈھیلا ڈھالا‘ قرار دیا اور کہا کہ پہلی نظر سے ایسا لگتا ہے کہ ملزمین کو بچانے کی کوشش کی جارہی ہے۔عدالت عظمیٰ نے سماعت کے دوران کئی سوالات اٹھائے اور کہا کہ اتر پردیش حکومت کی طرف سے جانچ توقع کے مطابق نہیں ہے۔ حکومت کی طرف سے پیش کی گئی پیش رفت رپورٹ میں گواہوں کے بیانات ریکارڈ کرنے کی معلومات کے علاوہ اس معاملے میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ بنچ نے پوچھا کہ کلیدی ملزم آشیش کے علاوہ دیگر ملزمین کے موبائل فون کیوں ضبط نہیں کئے گئے۔ انہوں نے دیگر ملزمان کے موبائل فون ضبط نہ کرنے پر شدید برہمی کا اظہار کیا۔اتر پردیش حکومت نے عدالت کو بتایا کہ اس معاملہ میں شواہد سے متعلق لیب کی رپورٹ 15 نومبر تک آ جائے گی۔ جس پر عدالت نے کہا کہ اس معاملہ میں 10 دن کا وقت دیا گیاتھا اور اس دوران کچھ نہیں کیا گیا۔ حکومت نے کہا کہ اس کا لیب کے کام کاج پر کنٹرول نہیں ہے۔حکومت کی جانب سے کی گئی تحقیقات سے غیر مطمئن بنچ نے کہا کہ وہ اس معاملے کی جانچ پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ کے رٹائرڈ جج جسٹس رنجیت سنگھ سے کروانا چاہتی ہے۔ اس پر سرکاری وکیل سالوے نے کہا کہ وہ جمعہ کو ہونے والی اگلی سماعت میں اس معاملے میں حکومت کا موقف پیش کریں گے۔قابل ذکر ہے کہ گزشتہ 3 اکتوبر کو اتر پردیش کے لکھیم پور کھیری میں کسانوں کے احتجاج کے دوران چار کسان مظاہرین سمیت آٹھ افراد کی موت ہو گئی تھی۔ مرکزی حکومت کے نئے زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کرنے والے چار کسانوں کے کچل کر مارنے کے الزامات ہیں۔ یہ الزام مرکزی وزیر مملکت برائے داخلہ اجے مشرا کے بیٹے آشیش مشرا اور دیگر کے خلاف ہے۔ اس واقعہ میں آشیش کو کلیدی ملزم نامزد کیا گیا ہے۔اس معاملے کی سماعت 26 اکتوبر کو چیف جسٹس کی سربراہی میں بنچ نے کی تھی۔ اس دوران بنچ نے اتر پردیش کی یوگی آدتیہ ناتھ حکومت کو معاملے کی جانچ میں لاپرواہی کا مظاہرہ کرنے پر سرزنش کی تھی۔ عدالت نے گواہوں کے تحفظ کا حکم دیتے ہوئے سی آر پی سی کی دفعہ 164 کے تحت بیانات کو تیزی سے ریکارڈ کرنے کا بھی حکم دیا تھا۔گزشتہ سماعت کے دوران بنچ نے واقعہ کو گھناؤنا قتل قرار دیا تھا اور حکومت کو معاملے کی سنجیدگی سے تحقیقات کرنے کا حکم دیا تھا۔گزشتہ سماعت کے دوران حکومت نے بنچ کو بتایا کہ تحقیقات میں کوئی لاپرواہی نہیں کی جا رہی ہے۔ حکومت کی جانب سے کہا گیا کہ سی آر پی سی کی دفعہ 164 کے تحت 68 میں سے 30 گواہوں کے بیانات ریکارڈ کیے گئے ہیں۔ عدالت عظمیٰ نے گواہوں کی تعداد کم بتاتے ہوئے سخت تبصرے کئے تھے اور کہا تھا کہ سینکڑوں لوگوں کی موجودگی میں جو واقعہ ہوا اس میں صرف 68 گواہ تھے۔سپریم کورٹ نے اس معاملے کا ازخود نوٹس لیا تھا، جسے دو وکلاء کی اپیل کو پی آئی ایل میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔ وکلاء نے اس معاملے کی عدالتی جانچ اور سی بی آئی سے انکوائری کا مطالبہ کیا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ کسانوں کی کئی تنظیمیں مرکزی حکومت کے تین نئے زرعی قوانین کے خلاف ملک بھر میں احتجاج کر رہی ہیں۔ سنیکت کسان مورچہ کے بینر تلے 40 سے زائد کسان تنظیمیں دارالحکومت دہلی کی سرحدوں کے علاوہ ملک کے دیگر حصوں میں مسلسل احتجاج کر رہی ہیں۔کسانوں کی تنظیمیں مرکزی حکومت کی طرف سے تین زرعی قوانین – زرعی پیداوارتجارت (کامرس پروموشن اینڈ فیسیلیٹیشن) ایکٹ-2020، کسان (امپاورمنٹ اینڈ پروٹیکشن) قیمت کی یقین دہانی اور ایگری کلچرل سروسز ایکٹ-2020 اور ضروری اشیاء (ترمیم) ایکٹ۔ 2020 کی مخالفت کر رہے ہیں۔جنوری میں سپریم کورٹ نے کسانوں کے احتجاج کے پیش نظر ان قوانین کے نفاذ پر روک لگا دی تھی۔