آنجلا غیور: وہ ٹیچر جو طالبان کی پابندی کے باوجود لڑکیوں کو پڑھانے کے لیے پرعزم ہیں

کابل،نومبر۔جب طالبان نے 15 اگست 2021 کو افغانستان میں اقتدار سنبھالا تو انھوں نے خواتین اور لڑکیوں کو گھروں میں رہنے کو کہا اور لڑکیوں کے سکول جانے پر ‘عارضی‘ پابندی لگا دی۔اسی وقت افغانستان سے باہر رہنے والی ایک افغان نڑاد خاتون آنجلا غیور نے لڑکیوں کی تعلیم کو درہم برہم دیکھ کر سوچا کہ اس کے بارے میں کچھ کرنا چاہیے۔آج ان کے آن لائن سکول میں ایک ہزار سے زیادہ طالبات اور 400 سے زیادہ رضاکار اساتذہ ہیں۔آنجلا صرف آٹھ سال کی تھیں جب 1992 میں افغانستان خانہ جنگی کی لپیٹ میں تھا اور ملک کے مغربی شہر ہرات سے ان کا خاندان پناہ لینے کے لیے ایران چلا گیا۔آنجلا اگلے پانچ سال تک سکول نہیں جا سکیں۔ انھیں ایرانی حکام نے عارضی ویزا دیا تھا جس کی وجہ سے وہ سکول جانے کی اہل نہیں تھیں۔اب آنجلا برطانیہ کے شہر برائٹن میں رہتی ہیں۔ اپنی کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ اْن دنوں افغانستان سے ایران فرار ہونے والے بچوں کا سکول نہ جا پانا عام بات تھی کیونکہ ان کے پاس دستاویزات نہیں تھیں۔ایران پہنچنے کے پانچ سال بعد ان کے والد درکار دستاویزات حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے اور وہ سکول جانے لگیں۔ پھر 13 سال کی عمر میں انھیں احساس ہوا کہ ان کے لیے تعلیم سب سے اہم ہے اور انھیں اپنی زندگی میں کچھ کرنا ہے۔ہر روز سکول سے واپسی کے بعد وہ 14 دیگر افغان بچوں کو پڑھاتی تھیں۔ ان بچوں کے پاس ان کی طرح سکول جانے کے لیے دستاویزات نہیں تھیں۔آنجلا کے والد ایران میں ایک مالی تھے اور ایک باغ کی دیکھ بھال کرتے تھے۔ وہ اس باغ میں بچوں کی کلاس لیتی تھیں۔ پڑھنا، لکھنا، بولنا، جو کچھ بھی وہ سکول میں سیکھتیں، وہ واپس بچوں کو سکھاتیں۔برسوں بعد جب طالبان کو اقتدار سے بے دخل کیا گیا تو آنجلا افغانستان واپس آئیں اور سیکنڈری سکول ٹیچر کی ملازمت کے لیے امتحان پاس کیا۔ بعد میں وہ نیدرلینڈز چلی گئیں اور بالآخر برطانیہ پہنچ گئیں۔دنیا بھر میں رہنے والے باقی افغان نڑاد لوگوں کی طرح انھوں نے بھی گذشتہ ایک سال میں افغانستان میں بدلتی ہوئی صورتحال کو حیرت اور تشویش سے دیکھا۔بیس سالہ جنگ کے بعد امریکہ نے اپنی فوجیں واپس بلائیں اور جلد ہی افغانستان طالبان کے کنٹرول میں آگیا۔پچھلے بیس برس میں لڑکیوں اور خواتین کی تعلیم میں جو بھی پیش رفت ہوئی تھی وہ خطرے میں پڑ گئی ہے۔طالبان نے دعویٰ کیا ہے کہ خواتین کے کام کرنے اور لڑکیوں کے سکول جانے پر پابندی عارضی ہے اور وہ اس بات کو یقینی بنانے میں مصروف ہیں کہ تمام دفاتر اور سکول خواتین کے لیے محفوظ ہوں۔لیکن آنجلا یہ سوچ کر پریشان ہیں کہ جس طرح وہ پانچ سال سکول نہیں جا سکی تھیں، اسی طرح اور بھی بہت سی لڑکیاں نہیں جا سکیں گی۔ایسے میں آنجلا کو لگا کہ اب انھیں کچھ کرنا پڑے گا۔آنجلا نے آن لائن ہرات سکول کی بنیاد رکھی۔ یہ افغانستان کی لڑکیوں اور خواتین کے لیے آن لائن تعلیم کا ایک پلیٹ فارم ہے۔ انسٹاگرام پر پوسٹ کرتے ہوئے انھوں نے تجربہ کار اساتذہ سے کسی بھی طرح مدد کرنے کی اپیل کی۔ان کی پہلی پوسٹ کے بعد سے اب تک چار سو رضاکار ان کے ساتھ شامل ہو چکے ہیں۔ وہ ٹیلی گرام، سکائپ اور دیگر پلیٹ فارمز کے ذریعے 170 مختلف آن لائن کلاسز لیتے ہیں۔ ان میں ریاضی سے لے کر موسیقی تک کی تعلیم دی جاتی ہے۔ آنجلا سے وابستہ زیادہ تر اساتذہ کا تعلق ایران سے ہے جو دو سے آٹھ گھنٹے پڑھاتے ہیں۔آنجلا کہتی ہیں ’میں سمجھتی ہوں کہ یہ سکول میرے تجربے کا نتیجہ ہے۔ ہمارا مقصد ہے کہ بندوق کی جگہ قلم لے گا۔‘آنجلا کے سکول کے رضاکار تقریباً ایک ہزار لڑکیوں کو پڑھاتے ہیں۔ کابل کی 13 سالہ نسرین اور اْن کی چار بہنیں بھی ان میں شامل ہیں۔ طالبان کے اقتدار میں آنے اور سات سال سے زیادہ عمر کی لڑکیوں کے سکول جانے پر پابندی کے بعد ان بہنوں کو تعلیم سے محروم کر دیا گیا ہے۔یہ تمام بہنیں گھر میں رہ کر اپنی تعلیم جاری رکھنے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہیں لیکن دونوں بڑی بہنوں کے لیے یہ بہت مشکل ہو گیا ہے کیونکہ وہ یونیورسٹی میں انجینیئرنگ اور میڈیسن کی تعلیم حاصل کر رہی تھیں۔نسرین نے ایک انٹرویو میں کہا کہ ‘میرے سارے خواب برباد ہو گئے ہیں، اگر سکول کھل گئے تو بھی حالات پہلے جیسے نہیں ہوں گے، میں پائلٹ بننا چاہتی تھی لیکن اب ایسا کبھی نہیں ہو گا کیونکہ طالبان کسی لڑکی کو پائلٹ نہیں بننے دیں گے۔‘لیکن اب آنجلا کے آن لائن سکول سے ان لڑکیوں کے لیے کچھ امیدیں ہیں۔ نسرین اب ایک رضاکار استاد کی مدد سے ترک زبان سیکھ رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ایک دن وہ استنبول میں رہنا چاہیں گی۔ اس آن لائن تعلیم نے اس کے خوابوں کو دوبارہ زندہ کر دیا ہے۔حالیہ دنوں میں ملک کے شمالی حصے سے لڑکیوں کو کچھ مثبت خبریں موصول ہوئی ہیں۔ ملک کے 34 میں سے پانچ صوبوں میں لڑکیوں کو سیکنڈری سکول جانے کی اجازت ہے۔نجی یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم لڑکیوں کو بھی کلاسز میں جانے کی اجازت دے دی گئی ہے تاہم سرکاری یونیورسٹیوں میں تاحال پابندی ہے۔لیکن کابل کی نسرین اور اس کی بہنوں اور ان جیسی لاکھوں افغان طالبات کے لیے سکول اب بھی مکمل طور پر بند ہیں۔نسرین کی والدہ ٹیچر ہیں اور ان جیسی خواتین سے بھی کہا گیا ہے کہ وہ کام پر نہ آئیں۔ طالبان نے ابھی تک یہ نہیں بتایا کہ ان جیسے اساتذہ کب کام پر واپس آ سکیں گے۔اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق کابل میں تربیت یافتہ اساتذہ میں 70 فیصد خواتین ہیں۔ ایسے میں اگر سکول مردوں کے لیے بھی کھلے ہیں تو ان کے لیے بھی اساتذہ کی کمی ہوگی۔طالبان کے اقتدار میں آنے سے پہلے بھی افغانستان تعلیم کے لحاظ سے پسماندہ تھا۔ وزارت تعلیم کے مطابق 2019 میں ملک میں پندرہ سال سے زیادہ عمر کی آبادی کا ایک تہائی حصہ ناخواندہ تھا۔اب بہت سی لڑکیاں گھروں میں قید ہیں۔ ایسے میں افغانستان میں تعلیم کے اعداد و شمار مزید خراب ہونے کی توقع ہے۔

Related Articles