سنجیو کمار: شعلے فلم کے ’ٹھاکر‘ جن کا لاکھوں روپے کا ادھار ہڑپ لیا گیا

نئی دہلی،نومبر۔بالی وڈ کے معروف اداکار سنجیو کمار چھ نومبر 1985 کو 47 سال کی عمر میں دنیا کو الوداع کہہ گئے۔اس وقت تک وہ سنیما کی دنیا کو 25 سال دے چکے تھے۔ ان کا 25 سال کا سفر بالی وڈ کی سپر ہٹ مصالحہ فلموں سے کم نہیں تھا۔خواہ وہ ان کی اداکاری کی گوناگونیت رہی ہو جو ناظرین کو حیران کرتی رہی، باکس آفس پر بلاک بسٹر فلمیں ہوں یا پھر خوبصورت معشوقوں کا ساتھ رہا ہو، سنجیو کمار کسی سپر سٹار سے کم نہیں تھے۔اپنی شہرت اور شراب نوشی کی عادت کی وجہ سے وہ ہمیشہ لوگوں میں گھرے رہتے تھے لیکن اس سب کے بعد بھی سنجیو کمار اپنی زندگی کے آخری مہینوں میں انتہائی تنہا ہو گئے اور اپنی بیماری سے نبرد آزما رہے۔یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ زندگی کے سفر میں بھی بطور فنکار سنجیو کمار ہمیشہ امتحان دیتے نظر آئے۔ بہت چھوٹی عمر میں والد کی موت، اس کے بعد والدہ کی جدوجہد، تھیٹر سے لگاؤ، خاندانی ذمہ داریاں اور فلموں میں کام حاصل کرنے کی جدوجہد شامل رہیں۔سی یا بی گریڈ فلموں سے آغاز کرتے ہوئے انھوں نے وہ شہرت محض اداکاری کے بل بوتے پر حاصل کی تھی جس کی وجہ سے انھوں نے متعدد ستاروں پر مبنی فلموں میں بھی سب سے زیادہ معاوضہ لینا شروع کر دیا تھا۔سنجیو کمار کو یہ کامیابی کسی جھٹکے سے نہیں ملی۔ انھوں نے اسے قدم بہ قدم حاصل کیا۔ بالکل اپنے طور پر۔ اس میں ان کے ساتھ بچپن سے اداکاری کی تربیت کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔یہ تربیت حاصل کرنے کے لیے سنجیو کمار کی والدہ نے اپنے زیورات گروی رکھوائے تاکہ ششیدھر مکھرجی کے ایکٹنگ سکول کی فیس بھری جا سکے۔ ویسے تو اْن کی والدہ چاہتی تھیں کہ وہ ڈاکٹر یا وکیل بنیں، لیکن سنجیو کمار کی اداکاری میں دلچسپی دیکھتے ہوئے اْنھوں نے یہ فیصلہ کیا۔سنجیو کمار کے جدوجہد کی دلچسپ کہانی میں ان کے نام کی کہانی بھی شامل ہے۔ دراصل ہندی فلموں میں کام ملنے سے پہلے انھوں نے تھیٹر کی دنیا میں ہریہر جیٹھالال کے نام سے کام کرنا شروع کیا تھا۔
سنجیو کمار نام کیسے پڑا؟:ہریہر جیٹھا لال جری والا کو ہندی فلموں میں کام کی تلاش میں پہلا موقع سنہ 1960 کی فلم ’ہم ہندوستانی‘ میں ملا تھا۔ سنیل دت اور آشا پاریکھ کی اس فلم میں سنجیو کمار کا کردار محض دو سیکنڈ کا کلوز اپ تھا۔اس کے بعد انھوں نے پروڈیوسر ڈائریکٹرز اور سٹوڈیوز کے چکر لگانے شروع کر دیے۔ دریں اثنا تھیٹر سے اپنے دوستوں کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے ہریہر جیٹھلال نے کہا کہ انھیں اپنے لیے سکرین کا نام تلاش کرنا پڑے گا۔ سنجیو کمار کی والدہ کا نام شانتا بین جری والا تھا۔انھوں نے اپنے دوستوں سے کہا کہ وہ نام ایس (سین) سے رکھیں گے اور اس وقت دلیپ کمار اور اشوک کمار کی کامیابی کا اثر دیکھتے ہوئے انھوں نے کمار کا لاحقہ رکھنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ نام بھی طے کیا، لیکن سنجے کمار۔سنجیو کمار کے کریئر کی دوسری ہندی فلم ’آو پیار کریں‘ 1964 میں ریلیز ہوئی اور اس میں کریڈٹ سنجے کمار کو دیا گیا۔ اس فلم کے بعد کمال امروہی نے انھیں ’شنکر حسین‘ نامی فلم (جو نہ بن سکی) کے لیے سائن کیا اور کہا کہ یہ نام زیادہ متاثر کن نہیں ہے۔کمال امروہی نے سنجیو کا نام گوتم راجونش رکھا۔ تاہم کمال پاکیزہ کے کام میں اس قدر منہمک تھے کہ انھوں نے چند شاٹس کے بعد بھی فلم مکمل نہیں کی۔ تو گوتم راجونش کا نام بھی سنجیو کمار کے مطابق نہیں تھا۔اسی دوران سنہ 1964 میں فلم دوستی سپر ہٹ ہوگئی اور اس فلم سے سنجے خان قائم ہوگئے۔ ایسے میں سنجے خان ہونے کے ناطے سنجے کمار کے نام سے فلم کرنا سودمند نہیں ہوگا، یہ سوچ کر ہریہر جیٹھالال نے اپنے دوستوں کے ساتھ دوبارہ غور کیا اور سنجیو کمار نام اپنا لیا۔ اس نام سے ان کی پہلی فلم 1965 میں ’نشان‘ تھی۔
پہلی مکمل سوانح عمری موت کے 36 سال بعد آئی:نام رکھنے کی اس کہانی کا ذکر حنیف زاویری اور سمنت بترا کی سنجیو کمار پر حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب میں کیا گیا ہے۔پینگوئن پبلی کیشنز کی شائع کردہ ’این ایکٹرز ایکٹر‘ سنجیو کمار کی باضابطہ سوانح حیات کہلاتی ہے۔ ان کی موت کے 36 سال تک سنجیو کمار کی زندگی کے سفر کو بیان کرنے والی ایک بھی کتاب نہیں تھی۔ اس خلا کو حنیف زاویری اور سمنت بترا کی کتاب نے کافی حد تک پْر کیا ہے۔سنہ 1968 کی فلم سنگھرش میں سنجیو کمار نے دلیپ کمار کے ساتھ اداکاری کر کے اپنا سکہ جمایا، جو ان کی موت تک یعنی اگلے 17 سالوں جاری رہا۔ اس دوران سنجیو کمار نے نہ صرف باکس آفس پر کامیاب فلمیں دیں بلکہ باکس آفس پر ایسی فلموں میں بھی کام کیا، جو ان کے دور سے بہت آگے کی تھیں۔سنہ 1970 میں ریلیز ہونے والی فلم ’کھلونا‘ میں ذہنی بیماری کا سامنا کرنے والے کردار نے انھیں شہرت اور کامیابی کے آسمان پر پہنچا دیا۔ دو سال بعد سنہ 1972 میں آنے والی فلم ’کوشش‘ میں انھوں نے بغیر بولے اپنی آنکھوں سے جادو کر دیا۔
ہر طرح کی فلمیں اور کردار ادا کیے:لیکن ایک اداکار کے طور پر سنجیو کمار نے نہ کبھی اپنے آپ کو دہرایا اور نہ ہی وہ کسی ٹائپ میں قید ہوئے۔ وہ سدا بہار اداکار کہلانے لگے۔انھوں نے اپنی امیج کی بالکل بھی پرواہ نہیں کی۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ ایک ہی وقت فلم ’انامیکا‘ میں جیا بھادوری کے عاشق کا کردار ادا کر رہے تھے اور ساتھ ہی وہ فلم ’پریچے‘ میں ان کے والد کا کردار ادا کر رہے تھے۔ شعلے میں انھوں نے جیا بھادوری کے سسر کا کردار ادا کیا۔ایک طرف وہ شعلے اور ترشول جیسی متعدد اداکاروں والی فلموں میں اپنی اداکاری سے لوگوں کے دل جیتتے رہے تو دوسری طرف تجرباتی فلموں کے ذریعے لوگوں کو حیران کرتے رہے۔ سنہ 1974 میں ’نیا دن، نئی رات‘ میں انھوں نے نو قسم کے کردار ادا کر کے لوگوں کو حیران کر دیا۔چنانچہ سنہ 1977 میں انھوں نے ستیہ جیت رائے کے ساتھ بہت کم پیسوں میں ’شطرنج کے کھلاڑی‘ میں کام کرنا قبول کر لیا۔ سنہ 1978 میں انھوں نے ’پتی، پتنی اور وہ‘ کے طور پر ایک سپر ہٹ فلم دی، اور سنہ 1982 میں ’انگور‘ جیسی بے مثال مزاحیہ فلم دی۔سنہ 1960 سے 1985 کے درمیان سنجیو کمار نے 153 فلموں میں کام کیا۔ ان میں ’دستک‘ اور ’کوشش‘ کے لیے انھیں قومی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ بی گریڈ فلموں میں کام کرکے یہاں تک پہنچنا آسان نہیں لیکن سنجیو کمار نے یہ مقام حاصل کر لیا۔
محبت میں ناکامی سے شراب کی لت تک:اس سفر میں سنجیو کمار کا شادی شدہ نوتن اور ہیما مالنی کے ساتھ افیئر بھی ہوا لیکن معاملہ نہ بنا۔ اس کے بعد سولکشنا پنڈت سمیت کچھ دیگر اداکاراؤں کے ساتھ بھی ان کے تعلقات کے چرچے ہوئے۔ لیکن سنجیو کمار نے شادی نہیں کی۔ محبت کے رشتوں میں ناکامی یا تنہائی کو دور کرنے کے لیے سنجیو کمار نے خود کو شراب میں غرق کر لیا۔سنجیو کمار بچپن سے ہی دل کی بیماریوں میں مبتلا تھے اور شراب کے نشے نے ان کی بیماری کو مزید بڑھا دیا۔ پھر 37 سال کی عمر میں انھیں اپنے کریئر کے عروج پر پہلی بار دل کا دورہ پڑا، لیکن انھوں نے اپنے طرز زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔اس کا خمیازہ یوں اٹھانا پڑا کہ جلد ہی دوسری بار دل کا دورہ پڑا۔ اس کے بعد سنجیو کمار امریکہ گئے اور اپنی اوپن ہارٹ سرجری کروائی۔امریکہ سے واپس آنے پر ان کے مکمل صحت یاب ہونے کی امید تھی، لیکن سنیما پروڈیوسروں کی جانب سے کام پر واپس آنے اور معلق پروجیکٹس کو مکمل کرنے کے اصرار نے انھیں آرام نہیں لینے دیا۔چھ نومبر سنہ 1985 کو سنجیو کمار کی موت پر ان کے دوست اور ساتھی فنکار دنیش ہنگو نے حنیف زاویری سے کہا: ’اگر وہ شادی کر لیتے، تو وہ زیادہ زندہ رہتے، وہ آرام کرنا نہیں جانتے تھے۔ بائی پاس سرجری کے بعد بھی کام جاری رہا۔ فلم ساز ان کی موت کے ذمہ دار ہیں۔‘
والدہ کی برسی پر دنیا سے رخصت ہو گئے:واضح رہے کہ ہر سال چھ نومبر کو سنجیو کمار اپنی ماں کی یادوں میں ڈوب جاتے تھے۔ ان کی والدہ کا انتقال چھ نومبر 1980 کو ہوا اور اس کے بعد وہ بیماری کا مقابلہ کرتے ہوئے صرف پانچ سال مزید زندہ رہے اور فلموں میں اداکاری کرتے رہے۔سنجیو کمار کے اس دور کے بارے میں کافی بحث ہوئی، جس میں ان کا شراب نوشی کے ساتھ ساتھ کنجوس ہونا اور خواتین دوستوں پر بھروسہ نہ کرنا شامل ہے۔بخل کے ذکر کی ایک وجہ یہ بھی رہی ہو گی کہ سنجیو کمار بہت سادہ کپڑے پہنتے تھے اور فلمی ستاروں کی طرح کپڑوں پر زیادہ خرچ نہیں کرتے تھے۔تاہم ان کے قریبی دوستوں نے انھیں یہ باور کروایا تھا کہ اگر کوئی ان سے ملتا جلتا ہے صرف ان کے پیسوں کی وجہ سے۔ سنجیو کمار نے اس پر تھوڑا سا بھروسہ کر لیا تھا اور اپنی زندگی کے آخری سالوں میں وہ دوسروں کے ساتھ جلدی نہیں کھلتے تھے۔ویسے حنیف زاویری اور سْمنت بترا کی کتاب سے پتا چلتا ہے کہ ان دونوں باتوں میں زیادہ صداقت نہیں ہے۔ حنیف زاویری سے سنجیو کمار کے ساتھ کام کرنے والی کئی اداکاراؤں نے بتایا کہ سنجیو کمار ان کے بہترین دوست تھے۔
شتروگھن اور امیتابھ کی شادیاں بچانے والے شخص:سنجیو کمار نے بھلے ہی اپنا گھر نہ بسایا لیکن وہ خاندان کی اہمیت سے پوری طرح واقف تھے۔ اس لیے انھوں نے نہ صرف اپنے خاندان کے افراد کی مدد کی بلکہ دوسروں کے تباہ ہوتے گھر کو بھی بچایا۔جب شتروگھن سنہا کا اپنی اہلیہ پونم سنہا کے ساتھ تناؤ بہت بڑھ گیا تھا تو سنجیو کمار نے اسے حل کرنے میں اہم کردار ادا کیا، جس کا ذکر شتروگھن سنہا بھی کرتے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شتروگھن سنہا زندگی بھر ان کے بہترین دوست رہے۔ اور جب سنجیو کمار کی موت ہوئی تو شتروگھن سنہا 48 گھنٹے تک ان کی لاش کے پاس بیٹھے رہے۔سنجیو کمار کی بہن کے امریکہ سے آنے کے بعد ہی ان کی آخری رسومات ادا کی گئیں۔ ان کی موت کی خبر کے بعد اگلے دن ممبئی میں فلم انڈسٹری میں کسی قسم کا کوئی کام نہیں ہوا اور تمام شوٹنگ منسوخ کر دی گئیں۔
گلزار بھی انھیں اپنا خاص دوست کہتے ہیں:حال ہی میں پینگوئن پبلی کیشنز کی جانب سے گلزار کی یادداشتوں پر مبنی ایک کتاب ’ایکچوئلی آئی میٹ دیم، اے میموئیر‘ منظر عام پر آئی ہے۔ اس میں سنجیو کمار پر ایک باب بھی ہے۔ گلزار نے انھیں سٹار کے بجائے اپنے دوست کے طور پر یاد کیا ہے۔گلزار اور سنجیو کمار کا ایک دوسرے کے ساتھ اچھا تال میل تھا۔ اس جوڑی نے ’موسم‘، ’آندھی‘ اور ’نمکین‘ جیسی بہترین فلمیں دیں جو فلم ’پریچے‘ سے شروع ہوئی۔ گلزار نے یہ لکھا ہے کہ سنجیو کمار کی موت کے بعد شتروگھن سنہا سکتے کے عالم میں 48 گھنٹے تک وہاں بیٹھے رہے۔حنیف زاویری اور سمنت بترا کی کتاب میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جب امیتابھ بچن اور جیا بھادوری کے درمیان باہمی تعلقات میں کشیدگی بڑھی تو سنجیو کمار نے صلح کروانے میں اہم کردار ادا کیا اور جیا بچن انھیں اپنا بھائی سمجھتی تھیں۔سنجیو کمار کی کنجوسی کی باتوں کے برعکس حنیف زاویری کے مطابق بہت سے معروف پروڈیوسرز اور اداکاروں نے بغیر حساب کتاب کے سنجیو کمار سے پیسے لینے کی حقیقت کو قبول کیا ہے۔حنیف زاویری نے لکھا ہے کہ سنجیو کمار کی موت کے بعد بونی کپور ان کے گھر والوں کو پیسے واپس کرنے گئے تھے جبکہ اہل خانہ کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ بونی نے سنجیو کمار سے پیسے لیے ہیں۔سنجیو کمار کے سیکریٹری جمنا داس نے پھر ڈائری کھولی اور گھر والوں کو بتایا کہ سنجیو کمار سے ان کے دوستوں اداکاروں اور پروڈیوسر ڈائریکٹرز نے 94 لاکھ 36 ہزار روپے ادھار لے رکھے تھے۔یہ رقم آج کے حساب سے بھی بہت بڑی ہے اور اس دور میں یہ آج کے مقابلے میں کہیں زیادہ تھی۔اس دور میں بینکوں میں پیسہ پانچ سال میں دو گنا ہوجاتا تھا جس میں آج تقریباً آٹھ سال لگتے ہیں۔ اور اگر اس حساب سے اس کا موازنہ کریں تو آج کے دور میں یہ 90 سے 100 کروڑ روپے بنتے ہیں۔جب سنجیو کمار کے اہل خانہ نے ان لوگوں سے رقم واپس لینے کی کوشش کی تو کسی نے بھی رقم واپس نہیں کی۔اس کے بعد سنجیو کمار کے گھر والے سنیل دت کے پاس گئے تاکہ ان کی کوششوں سے رقم واپس حاصل کی جا سکے۔ سنیل دت کا انڈسٹری میں کافی دبدبہ تھا لیکن وہ انڈسٹری کے طریقے کو بہتر جانتے تھے اس لیے انھوں نے گھر والوں سے کہا کہ میں پوری کوشش کروں گا لیکن پیسے واپس ملنے کی امید کم ہے۔وہ فہرست ابھی تک سنجیو کمار کے اہل خانہ کے پاس موجود ہے۔اس ڈائری میں سنجیو کمار کی زندگی سے جڑی تمام چھوٹی بڑی باتوں کا ذکر ہے کہ کس طرح سنجیو کمار اپنے لباس کے بارے میں بہت پرسکون رہتے تھے اور رات کو کسی بھی ساتھی فنکار کے گھر نان ویجیٹیرین کھانا کھانے پہنچ جاتے تھے۔سنجیو کمار پر اپنی یادداشت کی پہلی سطر میں گلزار نے انھیں نان ویج کھانے کا پرستار بھی بتایا ہے جو ہمیشہ باہر کھانے کے لیے تیار رہتے تھے۔
سیٹ پر دیر سے پہنچنے کے عادی:سنجیو کمار میں فلمی ستاروں کے ناز نخرے نہیں تھے لیکن وہ عموماً شوٹنگ کے لیے سیٹ پر دیر سے پہنچتے تھے۔ اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ وہ صبح تک شراب پیتے رہتے تھے۔اس کے باوجود ہدایت کار اور ساتھی اداکار زیادہ ناراض نہیں ہوتے تھے، کیونکہ سنجیو کمار صرف ایک ٹیک میں اپنے شاٹس کرنے کے لیے جانے جاتے تھے اور فلم انڈسٹری کو معلوم تھا کہ دوسرے اداکار جو کام آٹھ گھنٹے میں کیا کرتے ہیں، سنجیو کمار صرف چار گھنٹے میں اسے انجام دے لیتے تھے۔اس کے علاوہ اْن کی حس مزاح اس قدر زبردست تھی کہ ساتھی اداکار بھی ان کی باتوں پر ہنسے بغیر نہ رہ سکتے تھے۔حنیف زاویری نے بطور صحافی سنجیو کمار کو قریب سے دیکھا، ان کے کئی انٹرویوز کیے اور دعویٰ کیا کہ بالی وڈ کے اداکار دلیپ کمار نے انھیں سنجیو کمار پر کتاب لکھنے کا مشورہ دیا۔جب انھوں نے سنجیو کمار پر کتاب لکھنے کے لیے مواد اکٹھا کرنا شروع کیا تو انھیں سنجیو کمار کے ایک اور مداح سمنت بترا کا پتہ چلا اور پھر دونوں نے مل کر ایک کتاب تیار کی جس میں سنجیو کمار کی زندگی کی مکمل تفصیلات موجود ہیں۔حنیف زاویری کہتے ہیں: اس کتاب پر کام سنہ 2009 سے شروع ہوا تھا۔ پھر یہ پانچ سال تک کام نہیں ہو سکا۔ جری والا خاندان کی اپنی وجوہات تھیں۔ لیکن اس کے بعد میں نے تقریباً 150 لوگوں کے انٹرویوز کیے جو سنجیو کمار کو جانتے تھے۔ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ اس میں کتنا وقت لگا لیکن ہم نے ایک مکمل کتاب تیار کی ہے۔

Related Articles