’سعودی عرب سکرین کی مقامی مواد کامرکزبن سکتا ہے؛مزید سینماگھرکھلنے کو تیار‘
ریاض،اکتوبر۔عالمی فلم سازوں ، میڈیا ماہرین اورتقسیم کنندگان نے اس یقین کا اظہار کیا ہیکہ سعودی عرب کہانی سنانے اورمقامی مواد کی تخلیق کا دنیا بھرمیں مرکزبن سکتا ہے جبکہ جمعرات کو مستقبل سرمایہ کاری اقدام (فیوچرانویسٹمنٹ انیشی ایٹو،ایف آئی آئی) کانفرنس میں مملکت میں مزید سینما گھرکھولنے کے منصوبوں کی نقاب کشائی کی گئی ہے۔ماجدالفطیم گروپ کے سی ای او ایگنس لاہود نے فورم کو بتایاکہ میڈیا اورٹیک ریسرچ فرم اومڈیا کی حالیہ رپورٹ کے مطابق 2019 کے مقابلے میں 2020 میں سینما باکس آفس کی آمدنی میں 71.5 فی صد کمی واقع ہوئی ہے۔تاہم سعودی عرب میں فلموں کی مانگ میں اضافہ ہورہا ہے۔انھوں نے کہا کہ ’’ہم نے باقی دنیا کی طرح کرونا وائرس کی وبا کے اثرات کو محسوس کیا لیکن ہم نے ایک مضبوط احیاء دیکھا ہے۔’بانڈ اور وینم‘ جیسی حالیہ کامیاب فلموں کے ساتھ ہم وبا سے پہلے کی سطح پر واپس آ گئے ہیں۔‘‘انھوں نیکہا کہ ’’گذشتہ چند سال کے دوران میں سعودی عرب میں ہم نے مضبوط ترقی دیکھی ہے۔ ہم2022ء کے آخرتک دس شہروں میں توسیع کا ارادہ رکھتے ہیں اورہمیں یقین ہے کہ ہم اپنی توسیع کو تین گنا بڑھا سکتے ہیں۔‘‘لاہود نے کہا کہ رواں ہفتے ماجدالفطیم گروپ سرکاری طور پرمال آف سعودی پروجیکٹ کا سنگ بنیادرکھے گااور یہ سعودی عرب میں تفریح کی ایک اہم مرکزہوگا۔ضلع النرجس میں واقع یہ مال بالآخرسعودی عرب میں سنیما سکرینوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کا بھی مرکز ہوگا۔اس کے علاوہ ایک اور گروپ ووکس پہلے ہی مملکت بھر میں 15 سینماگھروں کو چلا رہا ہے اور یہ 154 سنیما سکرینوں کے برابرہیں۔لاہود نے بتایاکہ بہت سے مطالعات میں آیندہ برسوں میں سعودی عرب میں 2000 سنیماسکرینوں کے کھلنے کاامکان ظاہر کیاگیا ہے۔مستقبل سرمایہ کاری کانفرنس کے اس فورم میں شرکاء کو بتایا گیا کہ کووِڈ-19 وبا کی وجہ سے آن لائن مواد کی اسٹریمنگ میں اضافہ ہوا ہے۔ آن لائن رقوم کی منتقلی کی بنا پراورسبسکرپشن والی ویڈیوزکی آمدن 2019 میں 26 ارب ڈالر تھی مگر 2020 میں یہ 30 فی صدبڑھ کر34 ارب ڈالر ہوگئی تھی۔
مقامی مواد کی مانگ:لاہود کا کہنا تھا کہ ’’سعودی عرب میں فلم سازی کا ٹیلنٹ مقامی مواد کی بڑھتی ہوئی مانگ کوپوراکرسکتاہے۔نوجوان اور باصلاحیت تخلیق کاروں کی ایک ابھرتی ہوئی نسل ہے۔ ہم اس صنعت کے مرکزمیں رہنا چاہتے ہیں اور یہ مقامی صلاحیتوں کو فروغ دے رہی ہے۔‘‘امریکا میں قائم میگا میڈیا کمپنی ایس ٹی ایکس انٹرٹینمنٹ کے چیئرمین اور سی ای او رابرٹ سائمنڈز کی رائے میں کووِڈ-19 کی ضمنی مصنوعات میں سے ایک نئے اور آسانی سے دستیاب مواد کی طلب کا ’’دھماکا‘‘ ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ’’ہم سب اپنااپنامواد فروخت کرتے ہیں، ظاہر ہے کہ کووِڈ کے ساتھ دنیا بدل گئی ہے، ماڈل بدل گیا ہے۔ اس نیسکرین کے مواد کو کہیں زیادہ منافع بخش بنادیا ہے۔کووِڈ کی وبا خوفناک تھی لیکن دلچسپ ضمنی مصنوعات میں سے ایک یہ ہے کہ ہم اس کے وجود کے بعد سے کچھ بہترین سال گزارسکتے ہیں۔‘‘فورم میں انٹرٹینمنٹ میڈیا وینچرزکے صدرسینفورڈ کلیمن کا بھی کہنا تھا کہ انھیں یقین ہے کہ سعودی عرب فلم سازی کا مرکز بن سکتا ہے۔انھوں نے کہا کہ نیٹ فلیکس کی میگاہٹ سکویڈ گیم جیسی فلموں میں اچھی طرح سے بنائے گئے مقامی مواد کی مانگ ظاہر کی گئی ہے۔ان کے بہ قول سعودی عرب مینا کے خطے میں مواد کی تخلیق کا ایک بڑا مرکز ثابت ہوگا-لوگ کسی بھی زبان میں ذیلی عنوانات کے ساتھ اعلیٰ معیارکا مواد دیکھ رہے ہیں اورامید یہ ہے کہ یہ خطہ کہانی سنانے کا حقیقی مرکزثابت ہوگا۔’’یہ خطہ عرب مہمان نوازی کا دل لے کرعوام تک پہنچ رہا ہے۔نوجوان سعودی فلم سازوں کو لے لیں۔انھیں آلات و مواد دیں اورانھیں وہ کہانیاں سنانے دیں جودنیا کے دلوں تک پہنچتی ہیں۔‘‘ان کا کہنا تھا۔