چین کا ہائپرسانک میزائل
کیا اس سے اسلحے کی ایک نئی دوڑ شروع ہو سکتی ہے؟
لندن/بیجنگ،اکتوبر۔چین کی طرف سے جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھنے والے ہائپرسانک میزائل کے تجربے کی خبر کو کچھ ماہرین نے ایک ایسا گیم چینجر قرار دیا ہے جس سے امریکی حکام بھی حیرت میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ یونیورسٹی آف ایگزیٹر میں سٹریٹیجی اینڈ سکیورٹی انسٹی ٹیوٹ کے جوناتھن مارکس نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ آخر یہ کتنا بڑا مسئلہ ہو سکتا ہے۔ہائپرسانک میزائل عام میزائلوں کے مقابلے میں انتہائی تیز رفتار اور سبک ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کا توڑ تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔چین کے علاوہ امریکہ، روس اور کم از کم پانچ دوسرے ملک ہائپرسانک میزائل ٹیکنالوجی پر کام کر رہے ہیں۔گذشتہ ماہ شمالی کوریا نے کہا تھا کہ اس نے ایک ہائپرسانک میزائل کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔ جولائی کے مہینے میں روس نے اس نوعیت کا اعلان کیا تھا اور کہا تھا کہ اس نے سمندر سے یہ میزائل داغا تھا۔
چین کی طرف سے اس میزائل کا تجربہ کتنی اہمیت کا حامل ہے؟:موسم گرما میں دو بار چین کی فوجی نے خلا میں راکٹ لانچ کیا جس نے اپنے ہدف کی طرف تیزی سے بڑھنے سے قبل پوری دنیا کا چکر لگایا۔فائنینشل ٹائمز نے یہ خبر بریک کی تھی اور اس تجربے سے باخبر افراد نے اخبار کو بتایا تھا کہ پہلی بار یہ راکٹ اپنے ہدف کو حاصل نہیں کر سکا تھا اور اپنے ہدف سے 40 کلومیٹر دوری پر رہا۔بین الاقوامی جریدے فائنینشل ٹائمز کے مطابق امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں اس خبر سے تشویش کی ایک لہر دوڑ گئی تھی جہاں امریکہ کے خفیہ اداروں کو اس بارے میں کوئی پیشگی اطلاع نہیں تھی اور وہ یہ جان کر حیران رہ گئے تھے۔چین نے ان خبروں کی تردید کی تھی اور کہا تھا کہ اس نے جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھنے والے آواز کی رفتار سے پانچ گنا تیز میزائل کا چند مہینے قبل تجربہ کیا تھا اور اس بات پر اصرار کیا کہ یہ خلائی جہاز کا ایک معمول کا تجربہ تھا۔چین کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان ڑاؤ لیجان نے سوموار کو ذرائع ابلاغ کو ایک بریفنگ کے دوران بتایا کہ اس سال جولائی میں ایک معمول کا تجربہ کیا گیا تھا جس میں مختلف قسم کی دوبارہ قابل استعمال خلائی ٹیکنالوجی کو جانچا گیا تھا۔کیلیفورنیا کے مڈلیبری انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل سٹڈیز میں مشرقی ایشیا کے ’نان پرولیفریشن پروگرام‘ کے ڈائریکٹر جیفری لیوس کا کہنا ہے کہ چین کا انکار ایک ’ابہام پر مبنی اقدام ہے‘ کیونکہ اس خبر کی تصدیق امریکی حکام نے دوسرے ذرائع سے کر لی ہے۔ان کے مطابق چین کا آربٹل بمبارڈمنٹ سسٹم (ایف او بی) کا تجربہ تکنیکی اور حکمت عملی دونوں کے لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے۔
آئی سی بی ایمز اور ایف او بی ایس کیا ہیں؟: آئی سی بی ایم ایک طویل فاصلے پر مار کرنے والا میزائل ہوتا ہے، جب اس میزائل کو زمین سے چھوڑا جاتا ہے تو یا اوپر جا کر دوبارہ ایک بار فضا میں داخل ہو کر اپنے ہدف کا خاص زاویے سے تعاقب کرتا ہے۔ ایک فنکشنل آربٹل بمبارڈمنٹ سسٹم ہدف کو غیر متوقع سمت سے نشانہ بنانے کے لیے میزائلوں کو زمین کے گرد ایک جزوی مدار سے بھیجتا ہے۔فلاڈلفیا میں فارن پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر آرون سٹین کا کہنا ہے کہ فائنینشل ٹائمز کی خبر اور چین کی تردید دونوں ہی درست ہو سکتے ہیں۔ان کے مطابق ’دوبارہ استعمال کے قابل خلائی جہاز ایک ہائپرسانک گلائیڈر ہوتا ہے۔ یہ صرف لینڈ کرتا ہے۔ کسی قسم کے گلائیڈر کے ذریعے فراہم کردہ ایف او بی سسٹم دوبارہ استعمال کے قابل خلائی جہاز جیسا کام کرتا ہے، لہٰذا میرے خیال میں دونوں کہانیوں کے درمیان اصل فرق معمولی سا ہے۔‘درحقیقت حالیہ چند ماہ میں متعدد امریکی اعلیٰ عہدیداروں نے چین کی طرف سے اس قسم کی پیشرفت سے متعلق عندیہ دیا ہے۔ایف او بی نظام کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ ایسے نظام پہلے سے بھی موجود ہیں۔یہ سرد جنگ کے دوران سویت یونین کا آئیڈیا تھا جس پر بظاہر اب چین کام کر رہا ہے۔ یہ خیال ایک ایسے ہتھیار کا ہے کہ جو زمین کے گرد جزوی مدار میں داخل ہو سکے تاکہ پھر وہاں سے یہ غیر متوقع سمت سے اپنے اہداف کو نشانہ بنا سکے۔چین نے جو کچھ کیا ہے وہ ایف او بی ایس ٹیکنالوجی کو ایک ہائپرسانک گلائیڈر کے ساتھ جوڑنا ہے۔ وہ فضا کے بیرونی کنارے کے ساتھ ساتھ ریڈار اور میزائل کے دفاع سے بچتے ہوئے ایک نئے نظام میں داخل ہوتے ہیں۔ لیکن کیوں؟جیفری لیوس کا کہنا ہے کہ ’بیجنگ کو یہ خدشہ ہے کہ امریکہ جدید جوہری قوتوں اور میزائل کے دفاع کے نظام سے اس کی ایسے حملوں کے خلاف دفاعی طاقت کو ختم کر دے گا۔‘وہ مزید کہتے ہیں ’اگر امریکہ پہلے بیجنگ پر حملہ کرتا ہے، جو آپشن ہم کہہ چکے ہیں کہ ہم رکھتے ہیں، تو الاسکا میں میزائل ڈیفنس سسٹم چین کے بچ جانے والے جوہری ہتھیاروں کی چھوٹی تعداد کو سنبھالنے میں کامیاب ہو سکتا تھا۔‘آرون سٹین کا کہنا ہے کہ تمام بڑے جوہری ہتھیار رکھنے والے ممالک ہائپرسانک نظام تیار کر رہے ہیں لیکن وہ اس نظام کو مختلف طریقے سے دیکھتے ہیں۔ آرون سٹین کہتے ہیں کہ یہ اختلاف ایک دوسرے کے بارے میں ان کی بے چینی اور خوف میں اضافہ کر سکتا ہے جس سے اسلحے کی دوڑ میں تیزی آ سکتی ہے۔وہ سمجھتے ہیں کہ بیجنگ اور ماسکو دونوں ہائپرسانک کو میزائل سسٹم کی شکست کو یقینی بنانے کے ہتھیار کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ مگر اس کے برعکس امریکہ اس میزائل کو نام نہاد مشکل اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کرنے کی منصوبہ رکھتا ہے، جیسا کہ وہ چیزیں جو جو روایتی یا غیر جوہری وارہیڈز کے استعمال کے ذریعے اس کے نیوکلیئر کمانڈ اینڈ کنٹرول کو مدد فراہم کر سکیں۔بعض ماہرین امریکہ کی طرف سے اپنے جوہری پروگرام میں جدت کو چین کی طرف سے اس میزائل کے تجربے کی وجہ قرار دیتے ہیں اور وہ اسے ’اے سپوتنک مومنٹ‘ سے تعبیر کرتے ہیں جب 1950 کی دہائی کے اواخر میں سویت یونین نے پہلا اوربِٹل سیٹلائٹ یا مدار میں بھیجا جانے والا سیٹلائٹ بنایا تھا جس سے امریکہ حیرت میں مبتلا ہو کر رہ گیا تھا۔مگر بعض ماہرین اس سے متفق نہیں ہوں گے اور وہ اس پر یقین نہیں کریں گے کہ چین نے امریکہ کے لیے نیا خطرہ پیدا کر دیا ہے۔کارنیگی انڈومنٹ فار انٹرنیشنل پیس کے جیمز ایکٹن کا کہنا ہے کہ کم از کم 80 کی دہائی سے ہی امریکہ کو چین کی طرف سے جوہری حملے کا خطرہ لاحق ہے۔تاہم ان کے مطابق چین، روس اور جنوبی کوریا کی طرف سے امریکہ کے میزائل ڈیفنس کو شکست دینے سے متعلق انتہائی کوششوں سے امریکہ کو چوکنا ہو جانا چاہیے اور اس پر از سر نو غور کرنا ہو گا کہ کیا وہ معاہدے جو ایسے دفاعی نظام پر پابندیاں عائد کرتے ہیں وہ امریکی مفاد میں ہیں۔جیفری لیوس اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اب امریکہ کے لیے اہم بات یہ ہے کہ وہ درست نتائج اخذ کرے۔ان کے مطابق انھیں یہ ڈر ہے کہ یہ 9/11 کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال جیسا ہے جب امریکہ نے حیرت اور خوف اور کمزوری جیسے جذبات میں خارجہ پالیسی میں تباہ کن فیصلے کیے جنھوں نے امریکہ کو مزید غیر محفوظ کر دیا ہے۔ان میں سے ایک چیز اینٹی بیلسٹک میزائل (اے بی ایم ٹریٹی) سے متعلق معاہدے سے امریکہ کا باہر نکلنے کا اعلان تھا کیونکہ ابھی اس معاہدے کو کسی بھی چیز سے بھی بڑھ کر چین کی طرف سے ایسے نظام کی تیاری کا ذمہ ٹھہرایا جا سکتا تھا۔امریکہ کے ممکنہ تمام حریف اپنے جوہری ہتھیاروں کو جدید اور بہتر بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔امریکہ کے مقابلے میں چین کے جوہری ہتھیار ابھی بھی کم معیار کے ہیں۔ لیکن اب امریکہ کا میزائل کا دفاعی نظام اور روایتی طرح کے طویل فاصلے پر مار کرنے والے سٹرائیک سسٹمز چین کو مجبور کر رہے ہیں کہ وہ ایک بڑے پیمانے پر اور مختلف خصوصیات پر مبنی جوہری ہتھیار بنائے۔جنوبی کوریا بھی اپنی جوہری صلاحیت کو جدید اور بہتر بنانے کے لیے کوشاں ہے۔ جیسے کارنیگی انڈومنٹ کے انکیت پانڈا نے کہا تھا کہ مستقبل کی سفارتکاری میں اضافی فائدے یقینی بنانے کے لیے وہ ایسا کر رہا ہے۔ان کے مطابق چند سال سے جنوبی کوریا امریکہ سے برابری کے سلوک کا مطالبہ کر رہا ہے اور وہ جدید جوہری اور میزائل کی صلاحیت کو عزت کمانے کے ذریعے کے طور پر دیکھ رہا ہے۔یہ سب اب جو بائیڈن انتظامیہ کے لیے جوہری درد سر کا ذریعہ بن گیا ہے۔ہتھیاروں کی روک تھام سے متعلق کئی موجودہ معاہدے سرد جنگ کے زمانے سے چلے آ رہے ہیں جو اس حوالے سے زیادہ مدد گار ثابت نہیں ہو سکے ہیں۔ اور نہ ہی یہ ماسکو اور بیجنگ میں کشیدگی کا سبب بن رہے ہیں۔انکیت پانڈا کے خیال میں اب امریکہ اس وقت جاری اسلحے کی دوڑ میں باکل اسی طرح کمی لا سکتا ہے جیسے اس نے سرد جنگ کے زمانے میں کیا تھا۔ان کے مطابق میزائل ڈیفنس کو اگر زیر بحث لائیں تو امریکہ چین اور روس سے بامقصد رعایتیں حاصل کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ معاہدہ ہر ایک کو ایٹمی ہتھیاروں کی فراہمی کے مہنگے، پیچیدہ اور خطرناک طریقوں کو اپنانے سے روک دے گا۔جوناتھن مارکس برطانیہ کی یونیورسٹی آف ایگزیٹر کے سٹریٹجی اینڈ سکیورٹی انسٹی ٹیوٹ میں اعزازی پروفیسر ہیں