سیاسی توازن اورگڈ گورننس

تحریر:سردار پرویز محمود۔۔۔پیٹر برا

آئیے یہاں ناروے میں آج سے 20 سال قبل کا موازنہ کرتے ہیں۔ آج سے 20سال قبل آپ فون اٹھاتے تھے اور کسی ادارے یا محکمے کو کال کرتے تھے،آپ کی بات ایک انسان سے ہوتی تھی جو آپ کا کام یا مسئلہ سنتا تھا اور اسے حل کرتا تھا، ہم نے ایک محکمے کی ویب سائٹ کھولی تو بہت ڈھونڈھنے پر بھی فون نمبر نظر نہیں آرہا تھا، ایک کونے پر نظر پڑی، ہم سے چیٹ کریں، ہم نے چیٹ باکس کھولا تو ایک پیغام آیا کہ آپ فلاں محکمے کے چیٹ روبوٹ سے بات کررہے ہیں، بتائیے آپ کی کیا مدد کرسکتے ہیں، تھوڑا آگے چلے تو روبوٹ کہنے لگا مجھے سمجھ نہیں آرہی آپ کیا کہہ رہے ہیں، ہم نے اپنا سوال دہرایا تو جواب آیا کہ کیا آپ ایک انسان سے بات کرنا چاہتے ہیں،ہم نے چیٹ باکس کلوز کردیا، پھر سے نمبر ڈھونڈھنے لگے، کہی سے نمبر مل گیا اور کال کرنا شروع کی، چھ سات آپشنز آئے، کسی ایک کو پرس کیا تو مزید چھ سات آپشنز آئے، پندرہ سے بیس منٹ کے بعد ایک انسان سے بات ہوئی، یہ انسان ایک مختص فیلڈ کے لیے کام کررہا تھا،سب سے پہلے موصوف نے اچھی طرح چیک کیا کہ میں درست لا ئن پر پہنچا ہوں، موصوف سے بات ہوئی اور موصوف نے بتایا کہ آن لائن کیا طریقہ کار ہے متعلقہ مسئلہ کو اپروچ کرنے کا، ہمارے ایک دوست ہمیں بتانے لگے کہ ناروے نے دو ہزار بھارتی آئی ٹی نیشنلز کو صرف ایک بینک میں ملازمت کے ویزے جاری کیے ہیں، یہ لوگ بینکنگ سسٹم کا آئی ٹی انفراسٹرکچر تعمیر کریں گے،یہ نظام ایک ایسا آٹومیشن بنانے کی طرف کاوش ہے جو روبوٹ سافٹ ویئرز کے ذریعے کام کرے گا، کام کرنے والے انسانوں کی تعداد کم سے کم ہوتی جارہی ہے،سمجھ نہیں آتا اگر کوئی صاحب کمپیوٹر کی اچھی سمجھ بوجھ نہیں رکھتے تو وہ آج کے دور میں کسی محکمے یا ادارے سے انٹریکٹ کیسے کرتے ہیں، چونکہ نظام پر مسلسل کام ہورہا ہے اور نئی سے نئی ٹیکنالوجی اپلائی کی جارہی ہے اس لیے اس ریس کو کیچ کرنا درد سر بنا رہتا ہے،ہم جس انفراسٹرکچر کی بات کررہے ہیں وہ ایک آٹومیشن یا روبوٹ سافٹ ویئر بیسڈ آئی ٹی سسٹم ہے جو محکموں اور اداروں کے فنکشز کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے کم سے کم افرادی قوت پر انحصار کررہا ہے، میری اپنی فیلڈ انجینئرنگ ہے، لیکن سچ پوچھیں مجھے بھی کوفت ہوتی ہے، اس مارڈرنائزیشن کو کیچ کرنے میں، اس ماڈرنائزیشن اور آٹومیشن کو تو گویا پر لگے ہوے ہیں بعض اوقات ہم سوچتے ہیں کہ اگر یہ ماڈرنائزیشن ذرا سلو ہوجائے تو کیا فرق پڑے گا یہاں پڑوسی ملک سویڈن، ڈنمارک، فرانس، جرمنی، یورپین یونین، امریکہ اور کینیڈا میں نظام بھاگے جارہا ہے،ایک ملک میں سلو ہوگا تو باقی ممالک کو پہنچنا ناممکن ہوجائے گا۔ ناروے والے اپنے سسٹم کو ریس میں نہیں رکھیں گے تو پیچھے رہ جائیں گے، یہ متحمل ہی نہیں ہوسکتے پیچھے رہنا، کوئی چارہ ہی نہیں ہے، گورننس انفراسٹرکچر کو بین الاقوامی ریس میں رکھنا ایک بہت محنت طلب اور مسلسل کاوش کا کام ہے، آپ اس انفرا سٹرکچر کو تعمیر بھی کرتے ہیں اور اس کی سیکورٹی کا پورا پلان تیار رکھتے ہیں، جس طرح ایک عمارت میں نقب لگائی جاسکتی ہے۔ اسی طرح آپ کے سسٹم میں نقب لگائی جاسکتی ہے، اپنے تعمیر کئے ہوئے انفراسٹرکچر یا نظام کو ہیکنگ سے بچانا ترقی یافتہ دنیا کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے، اپنی انٹیلکچل پراپرٹی کو چوری ہونے سے بچانا ان کے لیے بڑا چیلنج ہے، ترقی یافتہ دنیا ایک دوسرے کے ساتھ برسر پیکار رہتی ہے، ان کی آپس کی جنگ کا فارمیٹ بدل چکا ہے،پراکسی وارز کے علاوہ ایک دوسرے کے سائبر سسٹمز کو ہیک کرنا۔ انٹیلکچل ڈیٹا چوری کرنا، جدید محاذ آرائی کا فارمیٹ ہے، پچھلے دنوں امریکہ کی ایک ریاست میں گیس پائپ لائین کے کنٹرول سسٹم کو رشین ہیکرز نے ہیک کرلیااور ہیکنگ کو ان لاک کرنے کے لیے بھاری رقم کا مطالبہ کیا،کسی بین الاقوامی اخبار میں یہ خبر لیک ہوئی تھی کہ ہیکرز کو بھاری رقم ادا کی گئی تب پائپ لائن سسٹم میں ہیک کو ان لاک کیا گیا لیکن قومی وقار اور پرسٹیج کا بھی کوئی تقاضہ ہوتا ہے، اس طرح کی خبروں کو باہر نہیں لایا جاتا۔ تو اس روبوٹ سافٹ ویئر یا آٹومیشن گورننس سسٹم کا الٹی میٹ مقصد کیا ہے، پبلک بہت حد تک اپنے دفتری کام خود کرے، یعنی اپنی انفارمیشن خود ڈیلیور کرے، اپنے ڈیکلریشن خود ڈیلیور کرے، اس کے لیے آپ کو دفتر میں بیٹھے ایک انسان کی ضرورت نہ ہو،گویا ہر محکمے یا ادارے نے ہر شہری کو سائبر سپیس پر ایک آفس کھول دیا ہے، آپ ایک آفس کو ایک یونیک آئی ڈی سے ان لاک کریں، اس میں اپنے بارے میں معلومات دیں اور متعلقہ محکمے کے ساتھ آپ کے سارے رابطے کی تفصیل اور ہسٹری بھی موجود ہے اور محکمے یا ادارے کے ساتھ آپ کی اس انٹریکشن کو ایفی شینٹ اور پرابلم فری بنانے کے لیے ریسرچ ادارے مسلسل کام کررہے ہیں، اس گورننس سسٹم کے چیلنجز اپنی نوعیت کے ہیں، اداروں اور محکمموں کے درمیان ڈیٹا فلیٹ کو آٹومیٹک بنانے کی کاوش جاری ہے، ایک ہی ادارے یا محکمے کی مختلف اکائیوں کے درمیان رابطے کو بھی آسان اور آٹومیٹک کرنے کی کاوش جاری ہے، اور ماڈرنائزیشن کی ریس میں اگر پڑوسی ممالک سے پیچھے رہ گیے تو گویا آپ ہر معاملے میں ان سے پیچھے رہ گئے، اس مارڈن گورننس انفراسٹرکچر کو مزید مارڈن بنانے کا ایک اور بھی مقصد ہے، سٹیٹ اور فرد یا شہری کے درمیان فرائض اور حقوق کے توازن کو دستور اور قانون کے مطابق شفاف سے شفاف تر بنانا، اگر ایک انسان سٹیٹ کے لیے اجرت پر کام کررہا ہے تو ایک شہری اور سٹیٹ کے درمیان معاملات کو طے شدہ معاہدے کے مطابق حتمی شکل دینا اس کی جاب ہے، ایک بات ہم عرض کردیں کہ یہ ماڈرن گورننس کی دوڑ اوولوشن کا حصہ تو لگتا ہے۔ لیکن جہاں اس ریس کے فوائد ہیں وہاں اس ماڈرنائزیشن اور لائف سٹائل کے منفی اثرات بھی ہیں، خاص طور پر انسان کی نفسیاتی صحت کے چیلنجز ہماری سوسائٹی سے کئی گنا زیادہ ہیں۔

 

Related Articles

Check Also

Close