طالبان سفری دستاویزات رکھنے والوں کو ملک سے جانے دینے کے وعدے پر عمل کریں: بلنکن
واشنگٹن,ستمبر,امریکہ کے وزیر خارجہ انٹنی بلنکن نے طالبان کو یاد دلایا ہے کہ دنیا اس بات کو بغور دیکھ رہی ہے کہ کیا طالبان اپنے اس وعدے کو پورا کر رہے ہیں کہ کسی بھی افغان باشندے کو قانونی سفری دستاویز رکھنے پر اس کی مرضی کے مطابق ملک سے باہر جانے دیا جائے گا۔بلنکن نے قطر کے دورے کے دوران بتایا کہ باور کیا جاتا ہے کہ افغانستان میں اس وقت، جہاں اب طالبان کا کنٹرول ہے، ایک سو کے قریب امریکی موجود ہیں جن میں دہری شہریت رکھنے والے افغان شہری بھی شامل ہیں۔انہوں نے بتایا کہ امریکہ کا محکمہ خارجہ تمام امریکی شہریوں سے براہ راست رابطے میں ہے۔ اور ہر شہری کے لیے الگ کیس مینیجر مقرر کیا گیا ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ وہ امریکی شہری جو افغانستان چھوڑنا چاہیں، ملک سے باہر جا سکیں۔وزیر خارجہ نے کہا گزشتہ 24 گھنٹوں میں طالبان اپنے وعدے پر قائم رہے ہیں اور انہوں نے چار افراد پر مشتمل ایک امریکی خاندان کو افغانستان چھوڑنے دیا اور اب خاندان کے افراد زمینی راستے سے ملک سے نکل چکے ہیں۔محکمہ خارجہ کے ایک اہل کار نے پیر کو کہا کہ طالبان اس خاندان کے ملک سے نکلنے سے آگاہ تھے لیکن سرکاری اہل کارنے یہ نہیں بتایا کہ امریکی خاندان نے افغانستان سے نکل کر کس ملک کا رخ کیا۔خیال رہے کہ وزیر خارجہ اور وزیر دفاع اس وقت امریکی سفارت کاری کے سلسلے میں مشرق وسطی کے ملکوں کے دوروں پر ہیں۔قطر میں قیام کے دوران وزیر خارجہ بلنکن نے قطر کے لوگوں کا شکریہ ادا کیا کہ ان کے ملک نے افغانستان میں طالبان کے کنٹرول سنبھالنے کے بعد امریکی،خطرات میں گھرے افغان اور دوسرے ممالک کے شہریوں کے انخلا میں ایک کلیدی کردار ادا کیا۔قطر افغانستان سے نکلنے والے 58,000 لوگوں کے لیے پہلا اسٹاپ تھا جہاں سے یہ لوگ ایک بہتر اور پر امن مستقبل کے لیے سفر پر روانہ ہو گئے۔بلنکن نے قطر کے کردار کو سراہتے ہوئے کہا کہ اس کو مدتوں یاد رکھا جائے گا۔بلنکن نے وزیر دفاع لائیڈ آسٹن کے ہمراہ نامہ نگاروں سے بات کرنے سے پہلے ایک اجلاس میں شرکت کی۔ قطر کے وزیر خارجہ محمد بن عبدالرحمان الثانی اور وزیر دفاع خالد بن محمد ال عطیہ بھی اس موقع پر موجود تھے۔میٹنگ میں افغانستان کے علاوہ تجارت، انسداد دہشت گردی اور انسان دوستی کے تحت دی جانے والی امداد پر بات چیت کی گئی۔قطر کے وزیر خارجہ الثانی نے بتایا کہ ان کے ملک کی ماہرین پر مشتمل ٹیمیں کابل میں تکنیکی مدد فراہم کر رہی ہیں تاکہ وہاں پر ایئر پورٹ کو فعال بنا کر اسے انسان دوستی کے تحت دی جانے والی امداد اور تجارتی پروازوں کے لیے کھولا جا سکے۔انہوں نے بتایا کہ ابھی ضروری ساز و سامان اور سیکیورٹی کے معیارات جیسی اہم ترین سہولتوں کی دستیابی کا کام باقی ہے جن کی دستیابی کے بعد مسافر بین الااقوامی پروازوں کے لیے کابل ایئر پورٹ سے سفر کر سکیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ اگر سیکیورٹی اقدامات اٹھائے جائیں اور طالبان کے ساتھ اس معاملے پر اتفاق ہو جائے تو ایئرپورٹ کو فعال بنانے کے حوالے سے آسانی ہو گی۔یاد رہے کہ کابل ایئر پورٹ پر طالبان کے دارالحکومت پر کنٹرول سنبھالنے کے بعد کئی روز تک افراتفری کے مناظر دیکھنے میں آئے۔ جب کہ امریکہ نے ایئرپورٹ کی سیکیورٹی کا نظام سنبھال کر ملک سے انخلا کے لیے پروازوں کو جاری رکھا۔ اس دوران انتہا پسند تنظیم داعش کے خراساں گروپ کے حملہ آوروں کے ایک حملے میں 13 امریکی فوجی اور 169 افغان شہری ہلاک ہوئے تھے۔قطر میں دورے کے دوران وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے امریکی کوششوں کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کی دو عشروں کی افغانستان میں موجودگی کے اختتام پر وہاں جو کچھ ہوا اس کا آنے والے دنوں اور مہینوں میں جائزہ لیا جائے گا۔انہوں نے کہا مجھے اپنی فوج کے جوانوں اور خواتین کی اس عظیم کاوش پر فخر ہے جو انہوں نے ایک لاکھ 25 ہزار افراد کو کابل ایئرپورٹ سے مختصر سے وقت میں وہاں سے نکالنے کے سلسلے میں سر انجام دی۔ انہوں نے مزید کہا کہ کوئی بھی آپریشن مکمل طورپرمثالی نہیں ہوتا اور سیکھنے کا موقع ہمیشہ موجود رہتا ہے۔اب جب کہ افغانستان میں امریکی فوجیں موجود نہیں ہیں، اس بات پر کو ئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ اس خطے سے ہونے والے خطرات کی شناخت اور ان سے مقابلہ کرنے میں دشواریاں زیادہ ہوں گی۔لیکن ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ امریکہ کے پاس اعلیٰ صلاحیتیں ہیں اور وہ اس بات کو یقینی بنائے گا کہ ملک کے لیے خطرات سر نہ اٹھائیں۔ دنیا میں کوئی ایسی جگہ نہیں ہے جہاں امریکہ نہ پہنچ سکے اور ہم نے اس بات کو بارہا ثابت کر دکھایا ہے۔ اپنے دورے کے اگلے مرحلے میں وزیر خارجہ بلنکن جرمنی جائیں گے جہاں وہ امریکی فوجیوں اور افغان پناہ گزینوں سے امریکی ایئر بیس رامسٹائین میں ملاقات کریں گے۔وہ 20 ممالک کے وزرا سے افغانستان کی صورت حال پر ایک ورچوئل یعنی آن لائن کانفرس سے بھی خطاب کریں گے۔آسٹن اپنے دورے کے اگلے مرحلے میں مشرق وسطی میں امریکہ کے حلیف ممالک بحریں، کویت اور سعودی عرب جائیں گے۔