غذائی تحفظ آج کا سب سے بڑا چیلنج- جے شنکر
نئی دہلی، فروری۔وزیر خارجہ ڈاکٹر ایس جے شنکر نے کہا ہے کہ اس وقت دنیا کا سب سے بڑا چیلنج غذائی تحفظ ہونے والا ہے اور اس سے نمٹنے کے لئے تمام ممالک کو مشترکہ طورپرکام کرنا ہوگا۔ڈاکٹر جے شنکر نےمنگل دیرشام سری نگر میں واقع شیر کشمیر یونیورسٹی آف ایگریکلچرل سائنسز اینڈ ٹکنالوجی کی طرف سے بین الاقوامی طلباء کے داخلے کے افتتاح کے موقع پر قومی دارالحکومت میں منعقدہ بین الاقوامی تعلیمی میلے کے پروگرام میں بطور مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے یہ بات کہی۔وزیر خارجہ نے کہا، ’’اگر مجھے موجودہ وقت کے کسی بڑے مسئلے کا انتخاب کرنا ہو تو ان میں غذائی تحفظ کا مسئلہ اہم ہے، یوکرین کی جنگ نے اس مسئلے کو مزید گھمبیر بناکرہمارے سامنے کھڑاکردیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہندوستان کی پہل پر اقوام متحدہ نے 2023 کو موٹے اناج کا بین الاقوامی سال منانے کا جو فیصلہ کیا ہے وہ بہت اہم ہے۔ اس کے نتائج نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیا کے لیے ہیں۔ اس سال جی-20 چوٹی کانفرنس سے بھی ہم یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ غذائی تحفظ کے لیے ضروری ہے کہ تمام ممالک مشترکہ کوششیں کریں۔ کیونکہ صدیوں سے ہم موٹے اناج پیدا کر رہے ہیں۔ اس کے لیے ایک نئی کوشش کی ضرورت ہے۔مرکزی وزیر تعلیم دھرمیندر پردھان، وزیر اعظم کے دفتر میں وزیر مملکت ڈاکٹر جتیندر سنگھ، جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا اور انڈین کونسل فار کلچرل ریلیشنز کے چیئرمین ونے سہسر بدھے نے بھی پروگرام میں شرکت کی۔بین الاقوامی تعلیمی میلے کی پہل کے لیے یونیورسٹی کی تعریف کرتے ہوئے، ڈاکٹر جے شنکر نے کہا کہ تین سال قبل جموں و کشمیر میں تبدیلی کا عمل شروع ہوا تھا، جس کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا تھا کہ ترقی اور پیشرفت کے مکمل ثمرات جو بقیہ ہندوستان نے کئی برسوں سے حاصل کیاتھا، وہ جموں و کشمیر کے لوگوں کے لئے اب مکمل طورپر دستیاب ہے، بالخصوص نوجوانوں کے لیے۔ اس تناظر میں جموں و کشمیر کے لوگوں کا قومی دھارے میں شامل ہونا بہت ضروری تھا۔ ایسا کرنے سے وہ باقی ہندوستان اور بین الاقوامی مین اسٹریم سے جڑ جائیں گے۔انہوں نے کہا، میرے لیے یہ صرف ایک تعلیمی پروگرام نہیں ہے، یہ اس بات کو یقینی بنانے کا ایک بہت ہی لازمی حصہ ہے کہ ہندوستان کا ایک بہت ہی اہم شعبہ دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے اس سے جڑا ہوا ہے۔ ڈاکٹر جے شنکر نے کہا کہ ہندوستانی یونیورسٹیوں کو اپنے کیمپس میں زیادہ سے زیادہ غیر ملکی طلباء کو مدعو کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔ انہوں نے کہا، آج، ہندوستان کے پاس دنیا کے 78 ممالک میں پروجیکٹ ہیں جو یا تو مکمل ہوچکے ہیں یا تکمیل کے قریب ہیں۔لہذا اگر ہمارے تعلقات اتنے وسیع ہیں، ہماری سرمایہ کاری اتنی گہری ہے اور ہماری نیٹ ورکنگ اتنی اچھی ہے، تو ہمیں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ہندوستان میں بین الاقوامی طلباء کا بہاؤ بڑا ہو۔وزیر خارجہ نے کہا، عالمگیریت کی دنیا میں، یہ بالکل ضروری ہے کہ ہندوستان کے نوجوان اس بات سے پوری طرح واقف ہوں کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے اور ایسا کرنے کا اس سے بہتر کوئی اور طریقہ نہیں ہے کہ آپ کے درمیان بین الاقوامی طلباء ہوں۔ مرکزی وزیر تعلیم مسٹرپردھان نے جموں و کشمیر کی حکومت کو ملک کے اعلیٰ تعلیم کے منظر نامے کی طاقت اور متحرکیت کے ساتھ ساتھ جموں و کشمیر کے علمی ورثے کو ظاہر کرنے پر مبارکباد دی۔ انہوں نے کہا، جموں و کشمیر وزیر اعظم مسٹرمودی کی دور اندیش قیادت میں ترقی کی ایک نئی صبح دیکھ رہا ہے۔ قومی تعلیمی پالیسی کے نفاذ سے ہم اپنے تعلیمی شعبے کو بین الاقوامی کر رہے ہیں۔ وزارت تعلیم شیر کشمیر یونیورسٹی آف ایگریکلچرل سائنسز اینڈ ٹکنالوجی-کشمیر کی عالمگیریت کی حمایت، حوصلہ افزائی اور سہولت فراہم کرے گی۔ انہوں نے تمام یونیورسٹیوں کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ ہندوستان کو ایک عالمی مطالعہ کی منزل کے طور پر قائم کرنے کی کوششوں میں شامل ہوں۔مرکزی وزیر مملکت ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے کہا کہ وزیر اعظم کی طرف سے لائی گئی قومی تعلیمی پالیسی صلاحیت سازی میں اہلیت، ہنر اور فلیکسی اختیارات کے ذریعے آپریٹڈ کیریئر اور اسٹارٹ اپ کے مواقع کھولنے کا وعدہ کرتی ہے۔ انہوں نے کہا، جموں و کشمیر میں زراعت کے نئے راستے، اروما مشن اور پرپل ریولوشن کی ایک بھرپورثقافت ہے، جو اسے ہندوستان میں ایگری اسٹارٹ اپ تحریک کا مشعل راہ بننے کی صلاحیت دیتی ہے۔ جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر مسٹرمنوج سنہا نے جموں و کشمیر کی ترقی کو تیز کرنے اور اسے طلباء، مسافروں اور کاروباریوں کے لیے ایک پسندیدہ مقام میں تبدیل کرنے کے لیے وزیر اعظم مسٹر مودی کا شکریہ ادا کیا۔ لیفٹیننٹ گورنر نے کہا کہ اس پہل کے ساتھ جموں و کشمیر نے غیر ملکی طلباء کے لئے ایک وقف پروگرام شروع کیا ہے۔ ہمارا مقصد مختلف موضوعات میں مختصر مدت اور طویل مدتی کورسز کے لیے بین الاقوامی طلباء کو جموں و کشمیر میں مدعو کرنا اور بین الاقوامی رابطہ کو مضبوط بنانا ہے۔ پچھلے تین برسوں میں، ہم نے تعلیم کے شعبے کو مضبوط بنانے، صنعتوں، زراعت اور صحت کی دیکھ بھال جیسے شعبوں کے لیے نالج ورکرز تیار کرنے پر توجہ مرکوز کی ہے۔لیفٹیننٹ گورنر نے کہا کہ جدت اور ترقی کے عمل کے لیے علم کے منافع کو دولت میں تبدیل کرنے کی سنجیدہ کوششیں کی گئی ہیں۔ اس سمت میں اس یونیورسٹی کا اقدام ملک کی دیگر یونیورسٹیوں کے لیے بھی ایک مثال قائم کرے گا۔انہوں نے مزید کہا، فطرت کی جنت میں واقع کیمپسز کے علاوہ، پیشہ ورانہ فیکلٹیز، اعلیٰ معیار زندگی، جموں و کشمیر بھی مصنوعی ذہانت، روبوٹکس سے لے کرزرعی سائنس، یوگا، سنسکرت اور تحقیق و اختراع کے لیے صنعتوں کے ساتھ انٹرفیس سے شروع ہونے والے مختلف کورسزکی پیش کش کررہا ہے۔لیفٹیننٹ گورنر نے کہا کہ 150 سے زیادہ اعلیٰ تعلیمی اداروں، دو مرکزی یونیورسٹیوں، سات ریاستی یونیورسٹیوں، دو ایمس، آئی ائی ایم، آئی آئی ی، این آئی ٹی، این آئی ایف ٹی، آئی آئی ایم سی نیز زرعی سائنس اور ٹیکنالوجی کی دو یونیورسٹیوں کے ساتھ، جموں و کشمیر ہندوستان میں طلباء کے لیے ایک پسندیدہ مقام کے طورپر ابھراہے۔