جب ایک مداح نے شاہ رخ خان کو عمرہ کرتے دیکھا
دلی،دسمبر۔ ارادہ قادیرووا جب مسجد حرم کے گیٹ نمبر 79 کے قریب پہنچیں تو انھیں ایسا محسوس ہوا کہ انھوں نے وہاں کسی جانے پہچانے شخص کو دیکھا ہے۔ انھیں پہلے یہ لگا کہ شاید ان کی آنکھیں دھوکہ کھا رہی ہیں۔ لیکن جلد ہی احساس ہوا کہ وہ واقعی وہی ہیں جو وہ سمجھ رہی تھیں: یعنی بالی ووڈ سپر سٹار شاہ رخ خان۔انھوں نے آذری زبان میں اپنے فیس بک اور انسٹاگرام پیج پر یکم دسمبر کی شام کو مسجد الحرام میں شاہ رخ خان کی تصویر پوسٹ کرتے ہوئے لکھا ’میرے گروپ لیڈر نے مجھے دیکھا اور مسکرایا۔ میں نے سب کو بتایا کہ یہ شاہ رخ خان ہیں۔‘انھوں نے بی بی سی کو بتایا کی ’ہم کنگ فہد گیٹ نمبر 89 پر طواف کی تیاری میں تھے، تبھی میں نے ہمارے ’کنگ‘ کو دیکھا۔ میں خوشی میں صرف اتنا ہی کہ پائی، ’یا اللہ، یہ گنگ ہیں، یہ گنگ ہیں۔‘وہ تھوڑی دیر وہیں رکی رہیں اور پھر فون نکال کر شہ رخ خان کی تصویر لی۔ ’مذہب کا احترام کرتے ہوئے میں نے سیلفی ویلفی نہیں لیا۔ میں ان کے قریب نہیں گئی، کیوں کہ وہ بھی اور میں بھی احرام میں تھے۔‘ قادیرووا نے کہا ’ہمیں مزہب کا احترام کرنا چاہیے۔ محبت انا نہیں ہے، محبت کا احساس ہی کافی ہے۔‘انھوں نے بتایا کہ وہ شاہ رخ خان کی فلمیں دیکھ کر بڑی ہوئی ہیں۔ وہ کہتی ہیں ’ان سے ملنا میرا خواب تھا۔ لیکن میں نے کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ ہم خدا کی سرزمین مکہ میں ملیں گے۔‘انھوں نے مزید کہا کہ ’میں امید کرتی ہوں کہ میں نے فوٹو لے کر کوئی خلل نہیں پیدا کیا۔ اللہ ہم دونوں کا عمرہ قبول کرے اور اگر میں نے کوئی خلل ڈالا ہو تو مجھے معاف کرے۔‘چند ہی منٹوں میں حرم میں خان کی تصاویر سوشل میڈیا پر ہر طرف نظر آنے لگیں۔ لوگوں نے قیاس لگانا شروع کر دیا کہ کیا یہ تصاویر اصلی ہیں یا نقلی۔ کچھ لوگوں نے یہ نشاندہی کہ وہ اپنی فلم ’ڈنکی‘ کی شوٹنگ کے لیے سعودی عرب میں موجود ہیں اور شاید اس کے ختم ہونے کے بعد وہ عمرے کے لیے گئے۔درحقیقت شاہرخ خان نے اس سے ایک دن پہلے ہی سعودی عرب سے انسٹاگرام پر ایک ویڈیو پوسٹ کی تھی اور لکھا تھا کہ ’سعودی وزارت برائے ثقافت، میری ٹیم اور ان تمام لوگوں کا بہت بہت شکریہ جنھوں نے ’ڈنکی‘ کی شوٹنگ میں سہولت فراہم کی۔‘انھوں نے اس ویڈیو میں مزید کہا کہ وہ اب ’ریڈ سی انٹرنیشنل فیسٹیول‘ میں جا رہے ہیں۔ سنہ 2019 میں شروع کیا گیا یہ سعودی عرب کا پہلا فلمی میلہ ہے اور اس سال اس میں ہالی وڈ کے ستارے شیرون سٹون اور اولیور سٹون، مصری ستارہ یسرا اور بالی ووڈ اداکارہ پریانکا چوپڑا اور فریڈا پنٹو سمیت کئی دیگر شخصیات شامل ہیں۔ایک ایسے ملک میں جسے قدامت پسند سمجھا جاتا ہے، فلمی ستاروں کی موجودگی، خاص طور پر سعودی سرکاری ایجنسی کی طرف سے فلم کی شوٹنگ میں سہولت فراہم کرنا، ملک کو ’باہر دنیا کے لیے کھولنے کی ایک کوشش کی طرف اشارہ کرتا ہے۔‘ حالیہ برسوں میں سعودی عرب نے اپنی معیشت کو متنوع بنانے کی کافی کوشش کی ہے اور تفریحی صنعت اس کا ایک اہم حصہ رہی ہے۔مملکت کو جدید اور متنوع بنانے کا سنہ 2016 کا منصوبہ، جسے سعودی ویڑن 2030 کہا جاتا ہے، ثقافت، تفریح، کھیل کود، عمرہ اور سیاحت پر کافی زور دیتا ہے۔سنہ 2017 میں اس نے 25 سالوں میں اپنا پہلا عوامی ’لائیو میوزک کنسرٹ‘منعقد کیا اور 2019 میں میوزک فیسٹیول کا انعقاد کیا۔ 2017 میں ہی اس نے 334 مربع کلومیٹر پر مشتمل ایک تفریحی کمپلیکس کا بھی اعلان کیا۔حالیہ مہینوں میں اس نے کنگ فہد سٹیڈیم میں خواتین کو جانے کی اجازت دی ہے۔ اس نے نئے سنیما ہال تعمیر کرنے پر بھی پابندی اٹھا لی۔ ساتھ ہی جدہ میں 2021 میں پہلی فارمولہ 1 ریس منعقد کی گئی (اسی دوران ریس کورس سے چند میل کے فاصلے پر ہی مبینہ حوثی میزائل حملے ہوئے تھے لیکن اس کے باوجود ریس جاری رہی)۔جامعہ ملیہ اسلامیہ سے منسلک مغربی ایشیا کی ماہر ڈاکٹر سجاتا ایشوریہ کہتی ہیں کہ عرب ممالک سیاسی، سماجی اور اقتصادی شعبوں میں اضافی اصلاحات متعارف کرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔وہ کہتی ہیں ’سعودی میں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ہے جنھیں حکومت کو مصروف رکھنا ہوگا۔‘اصلاح کی ان میں سے بہت سی کوششیں عرب سپرنگ، جس میں شمالی افریقی ممالک جیسے تیونس اور مصر میں جمہوری حکمرانی کے لیے شدید احتجاج ہوئے، کے بعد شروع ہوئیں۔ڈاکٹر ایشوریہ کا کہنا ہے کہ ’یہ سمجھا جاتا تھا کہ عرب سپرنگ خلیجی ممالک تک نہیں پہنچی تھی لیکن یہ سچ نہیں ہے۔ ہم نے ان ممالک میں روزمرہ کے مظاہروں کے بارے میں زیادہ نہیں سنا کیونکہ باہر آنے والے معلومات کو بہت حد تک روک دیا گیا تھا اور چیزوں کو عام طور پر دبا دیا گیا تھا۔‘وہ کہتی ہیں، ’عرب سپرنگ کے بعد عرب ممالک کے درمیان مشترکہ طور پر یہ احساس تھا کہ ہمیں حکومت کی سلامتی کے لیے لوگوں کو معاشرے، معیشت اور سیاست کے اصلاحاتی عمل میں شامل کرنا ہوگا‘۔وہ کہتی ہیں کہ سیاحت بڑھانے جیسے اقدامات بھی اسی کوشش کا حصہ ہے۔ ’سیاحت کو آپ کے اپنے نوجوانوں اور دوسرے ممالک کے لوگوں کے لیے نمائش کے راستے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے تاکہ وہ دیکھیں کہ مقامی لوگ کیا ہیں، کیسے ہیں‘۔وہ کہتی ہیں ’اس کا استعمال اپنے لوگوں اور باہر کے لوگوں کے لیے ایک دوسرے کے پرانے تصور کو توڑنے کے لیے کیا جارہا ہے‘۔یہ بھی خبریں آئیں تھیں کہ سعودی عرب 2030 میں ہونے والے فٹ بال ورلڈ کپ کے لیے بولی لگانے کی بھی کوشش کرے گا لیکن سعودی حکام نے اس کی تردید کی ہے۔اس سال کے آغاز میں ملک نے ارجنٹینا کے فٹ بال ستارہ لیونل میسی کو ملک کا سیاحتی سفیر نامزد کیا تھا۔ کھیل کود پر مشتمل ویب سائیٹ ’ایتھلیٹک‘ نے نومبر میں اطلاع دی تھی کہ سعودی عرب اب میسی کو 2030 ورلڈ کپ کی میزبانی کے لیے اپنے پروموشنل سفیر کے طور پر استعمال کرنا چاہتا ہے۔ویب سائیٹ کے مطابق سعودی عرب نے ان سے پہلے پرتگال کے کرسٹیانو رونالڈو کو لانے کی کوشش کی تھی لیکن ان سے معاہدہ نہیں ہو سکا تھا۔ان اقدامات کے علاوہ سعودی اور دوسرے عرب ممالک نے مغربی ممالک میں موجود مشہور یونیورسیٹیوں کی مقامی برانچیں بھی کھولی ہیں۔ سعودی عرب نے نیوم نامی ایک انتہائی جدید شہر بنانے کے منصوبے کا اعلان کیا ہے جس کا تخمینہ 500 ارب ڈالر لگایا گیا ہے۔سعودی عرب کا مقابلہ دوسرے عرب ممالک جیسے قطر اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ بھی ہے۔ سعودی عرب کی طرح یہ ممالک بھی زیادہ تر تیل اور گیس کی پیداوار پر انحصار کرتے ہیں لیکن معاشی اور سماجی تنوع کی کوششیں کر رہے ہیں۔ قطر میں جاری فٹبال ورلڈ کپ اسی کوشش کا ایک حصہ ہے۔حالانکہ یہ ممالک ’اوپن اپ‘ ہو رہے ہیں لیکن یہ بہت محتاط ہیں کہ نئے خیالات سیاسی اصلاحات کے مطالبات لا سکتے ہیں اور جس سے ان ممالک کی حکومتیں بھی بخوبی آگاہ ہیں۔سیاسی اصلاحات آسان تو نہیں ہیں لیکن ان ممالک کے لیے تیل سے آنے والے پیسوں کی وجہ سے معاشی اصلاحات کرنا پھر بھی مقابلتاً آسان ہے۔انٹرنیشنل مونیٹری فنڈ کی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’سعودی عرب کا ممکنہ طور پر اس سال دنیا کی سب سے تیزی سے ترقی کرنے والی معیشتوں میں سے ایک ہونے کا امکان ہے کیونکہ بڑے پیمانے پر کاروبار کی حامی اصلاحات اور تیل کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ وبائی امراض سے پیدا ہونے والی کساد بازاری کو قابو کرنے میں کامیاب ہو گا‘ لیکن ملک کے انسانی حقوق کے ریکارڈ، خواتین کے حقوق اور جنوبی ایشیائی مکوں سے آئے ہوئے مزدوروں کے ساتھ سلوک کو اکثر ناقدین تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ خود ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان پر الزام ہے کہ ان کے قریبی حفاظتی دستے نے صحافی خاشقجی کو قتل کیا تھا۔ وہ اس بات سے انکار کرتے ہیں کہ قتل کا حکم انہوں نے دیا تھا۔وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ سعودی عرب اعتدال پسند اسلام کی وجہ سے جانا جائے۔لیکن ملک کو ماڈرن اور متنوع بنانے کی ان کی کوشش کے لیے یہ ضروری ہے کہ عوام تک مثبت پییغام اور تصویر پہنچے۔ شاہ رخ خان اور میسی جیسے ستارے اس میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ایشوریہ کہتی ہیں ’یہ ان ممالک میں ترقیاتی حکمت عملی پر مکمل طور پر نظر ثانی کا ایک حصہ ہے‘۔