مشی گن کا سیمی کنڈکٹر پلانٹ گیم چینجر ثابت ہو گا: صدر بائیڈن
واشنگٹن،دسمبر۔صدر جو بائیڈن نے منگل کو مشی گن میں 300 ملین ڈالر کے سیمی کنڈکٹر مینوفیکچرنگ پلانٹ کا دورہ کیا جس سے ڈیجیٹل شعبے کے لیے انتہائی مطلوب چپ تیار کرنے کے ساتھ ساتھ 150 ملازمتیں بھی پیدا ہو ئی ہیں۔ اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ امریکہ اس صنعت میں چین جیسے ملکوں کے ہاتھوں اب مزید یرغمال نہیں بنے گا جو اس شعبے پر چھایا ہوا ہے۔ریاست کے شہر بے میں ایس کے سلٹرن سی ایس ایس نامی پلانٹ کو دیکھنے کے لیے جمع ہونیوالے 400 سے زیادہ لوگوں افراد سے خطاب کرتے ہوئے بائیڈن نے کہا کہ امریکہ اس صنعت پر چھائے ہوئے چین جیسے ملکوں کے ہاتھوں اب یرغمال نہیں بنے گا۔انہوں نے مزید کہا کہ بیرونی ملکوں مثلاً چین جیسی جگہوں پر بنی چپس پر انحصار کرنے کے بجائے ان چپس کی سپلائی کا سلسلہ اب یہاں امریکہ سے ہو گا، یہاں مشی گن سے۔یہ پلانٹ ایک گیم چینجر ہے۔ یہ کمپنی جنوبی کوریا کی ملٹی نیشنل کمپنی ایس کے گروپ کا حصہ ہے، اور یہ پلانٹ سیمی کنڈکٹرز کے لیے مواد بنائے گا جو الیکٹرک گاڑیوں میں استعمال کیے جائیں گے۔بائیڈن نے یہ بھی کہا کہ چین کے صدر شی جن پنگ نے اس قانون پر اس وقت عدم اطمینان کا اظہار کیا تھا جب ان دونوں کی اس ماہ کے شروع میں بالی، انڈونیشیا میں گروپ آف 20 کے سربراہی اجلاس کے موقع پر ملاقات ہوئی تھی۔صدر نے کہا کہ وہ تھوڑا سا پریشان ہیں کہ ہم فیصلہ کر رہے ہیں کہ ہم ایک بار پھر ’’ سپلائی چین‘‘ کے بارے میں بات کر رہے ہیں، ہم ’’سپلائی چین‘‘ بننے جا رہے ہیں۔ اب فرق ہونے جا رہا ہے۔ ہم اس ’’سپلائی چین‘‘ کو باقی دنیا کے لیے استعمال کریں گے ، اور ہمیں مزید یرغمال نہیں بنایا جائے گا۔بائیڈن نے اس منصوبے کو براہ راست چپس ا اینڈ سائنس ایکٹ سے منسلک کر دیا ہے، جس پر انہوں نے اگست میں دستخط کیے تھے۔اس بل میں امریکی کمپنیوں کے لیے تقریباً 52 ارب ڈالر کی فنڈنگ میں ان چپس کی تیاری بھی شامل ہے، جو اسمارٹ فونز، الیکٹرک گاڑیوں، آلات اور ہتھیاروں کے نظام جیسی ٹیکنالوجی میں استعمال ہوتے ہیں۔چین نے نہ صرف اس قانون سازی کے خلاف بلکہ انتظامیہ کے اکتوبر میں چپس پر ایکسپورٹ کنٹرول لگانے کے اس اقدام کے خلاف بھی آواز اٹھائی ہے، جس کا مقصد چین کو ان حساس ٹیکنالوجیز کیحصول سے روکنا ہے۔اچینی وزارت خارجہ کی ترجمان ماؤ ننگ نے اکتوبر میں امریکہ پر الزام لگایا تھا کہ وہ چینی کاروباری اداروں کو بلا جواز روکنے اور جکڑنے کے لیے برآمدی کنٹرول کے اقدامات کا غلط استعمال کر رہا ہے۔اس ہفتے نیشنل ڈیفنس آتھرائزیشن ایکٹ کے ذریعے ایک علیحدہ تجویز کے جواب میں جس کا مقصد سرکاری ایجنسیوں کو چینی سیمی کنڈکٹر مینوفیکچررز کے ساتھ کاروبار کرنے پر پابندی لگانا ہے۔ترجمان نے کہا کہ امریکہ کو اس آواز کو سننے کی ضرورت ہے جس میں زور دیا گیا ہے کہ وہ، اقتصادی ، تجارتی، سائنس اور ٹیکنالوجی کے مسائل کو سیاسی بنانا ، انہیں ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا ، چینی کمپنیوں کو مسدود کرنا اور ان کا راستہ روکنا ، منڈی کی معیشت کے قانون اور آزاد تجارت کے اصولوں کے احترام پر مائل کرنا، اور عالمی صنعتی اور سپلائی چینز کی سلامتی اور استحکام کا دفاع کرنا شامل ہے۔لیکن اس تقریب میں صدر بائیڈن استقبال کرنے والے ہجوم سے محظوظ ہوئے اور انہوں نے اپنی قوم کے لیے ٹیکنالوجیکل مستقبل کے بارے میں اپنے سوچ کو اجاگر کیا۔انہوں نے کہا کہ یہ کہاں لکھا ہے کہ امریکہ مینوفیکچرنگ کے شعبے میں میں دوبارہ دنیا کی قیادت نہیں کرے گا؟