چین امریکہ وزرائے خارجہ کی طویل ملاقات، تعلقات میں بتدریج بہتری کی امیدیں
منیلا ،جولائی۔امریکہ کے وزیر خارجہ نے چین کو متنبہ کیا کہ وہ 2016 کے اس عالمی فیصلے کی تعمیل کرے ، جس میں چین کے جنوبی بحیرہ چین پر ملکیت کے دعوں کو تسلیم نہیں کیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اگر متنازعہ سمندری حدود کی خلاف ورزی ہوئی اور فلپائین کی فوجوں، بحری جہازوں اورطیاروں پر حملہ ہوا تو امریکہ اپنے اتحادی فلپائین کا دفاع کرے گا۔بلنکن کا یہ بیان آج منگل کو منیلا میں قائم امریکی سفارت خانے نے جاری کیا۔ 2013 میں فلپائین نے ہیگ میں قائم اقوام متحدہ کے بحری قانون کے کنونشن سے چین کے خلاف شکایت کی تھی کہ وہ متنازعہ بحری حدود کی مسلسل خلاف ورزی کر رہا ہے۔ اس کی سماعت کرتے ہوئے 2016میں فیصلہ کیا گیا کہ ہیگ میں ایک ثالثی کنونشن بنایا جائے گا، جو جنوبی بحیرہ چین کی سمندری حدود کا تعین کرے گا۔چین نے کبھی اس رولنگ کو تسلیم نہیں کیا اورنہ اس کنونشن میں شریک ہوا۔ حالیہ برسوں میں اس نے فلپائین سمیت جنوب مشرقی ایشیائی ملکوں کے بحری ملکیتی دعووں کو نظر انداز کرتے ہوئے متنازعہ سمندری علاقوں میں اپنی جارحانہ سرگرمیاں جاری رکھی ہوئی ہیں۔وزیر خارجہ بلنکن نے کہا کہ ہم عوامی جمہوریہ چین پر زور دیتے ہیں کہ وہ اپنی بین الاقوامی ذمّہ داریوں کی تعمیل کرے اور اشتعال انگیز کارروائیوں کو بند کرے۔ انہوں نے کہا کہ 1951کے امریکہ فلپائین دفاعی معاہدے کے تحت امریکہ اپنی ذمّہ داری پوری کرے گا اورجنوبی بحیرہ چین میں فلپائین کی فوجوں اور اس کے جہازوں پر حملے کی صورت میں فلپائین کا ساتھ دے گا۔اس سمندری علاقے کے بہت سے حصّوں پر فلپائین کے علاوہ ویت نام، ملائیشیا،تائیوان اور برونائی بھی ملکیت کا دعویٰ کرتے ہیں۔ یہ ایک مصروف بحری گزرگاہ ہے اور باورکیا جاتا کہ اس سمندری علاقے میں تیل کو وسیع ذخائرموجود ہیں۔ اس راستے سے ہرسال تقریباً پانچ ٹریلین ڈالرمالیت کا تجارتی سامان بحری جہازوں کے ذریعے یہاں سے گزرتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ یہ چین اور امریکہ کے درمیان رقابت کی ایسی چنگاری بن گیا ہے جو کسی وقت بھڑک سکتی ہے۔ ہر چند کہ امریکہ اس بحری علاقے کا دعوے دار نہیں ہے ، مگر اس کی بحریہ اور فضائیہ علاقے میں اپنے مفادات کی نگرانی کے لیے ہمہ وقت موجود رہتی ہے۔ چین امریکہ کے اس رویّے کوایشیائی معاملات میں مداخلت گردانتا ہے۔ اس نے بارہا امریکہ کو متنبہ کیا کہ وہ اس علاقے سے دور رہے۔دوسری طرف ہفتے کے روز انڈونیشیا کے شہر بالی میں جی۔ 20 کانفرنس کے دوران وزیر خارجہ بلنکن اور چین کے وزیر خارجہ وانگ ای کے درمیان ملاقات ہوئی ہے جو پانچ گھنٹے تک جاری رہی۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ کئی اعتبار سے یہ ملاقات دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کے حوالے سے خوش آئند ہے، ہر چند کہ اس کا کوئی فوری نتیجہ سامنے نہیں آئے گا۔انہوں نے ان چیدہ چیدہ مسائل پرتبادلہ خیال کیا جنہوں نے گزشتہ پانچ برسوں میں دونوں سپرپاورز کو گھیر رکھا ہے۔بلنکن اور وانگ نے اختلاف کے بنیادی نکات پرایک دوسرے پردباؤ برقرار رکھا، بلنکن نے افسوس کا اظہار کیا کہ یوکرین کی جنگ کے دوران چین نے روس کا ساتھ دیا، دوسری طرف وانگ نے امریکہ سے کہا کہ وہ تائیوان کے بارے میں کسی بھول میں نہ رہے -ان مسائل کے علاوہ تجارت، متنازعہ جنوبی بحیرہ چین میں چینی فوجی سرگرمی اور چین میں انسانی حقوق کے مسائل نے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور سے ہی سرد بنا رکھا ہے۔تائیوان میں ایک آزاد سیاسی تجزیہ کار شان سو نے کہا، میرے خیال میں بلنکن نے بہت واضح طور پریہ اشارہ دیا ہے کہ وہ جنوبی چین کے سمندروں اور اس کے ساتھ ساتھ مشرقی ایشیا اور تائیوان میں چین کے اقدامات سے مطمئن نہیں ہے ۔کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ ہفتے کے روزدونوں وزراء خارجہ کے درمیان کسی بات پرخاص اتفاق رائے نہیں ہوسکا، لیکن امکان یہ ہے کہ ان کی ملاقات باہمی تعلقات کی گرمجوشی کا باعث بن سکتی ہے۔وائس آف امریکہنے پیر کو رپورٹ کیا کہ دونوں حکومتیں اب جولائی کے آخر میں اپنے رہنماؤں کے درمیان ورچوئل میٹنگ کا منصوبہ بنا رہی ہیں۔امریکہ میں قائم رینڈ کارپوریشن کے سینئر بین الاقوامی دفاعی محقق ٹموتھی ہیتھ نے کہا، مجھے اس بات کے کوئی اثار نظر نہیں آتے ہیں کہ دونوں فریق فوری طور پرسنجیدہ سمجھوتے یا رعایتیں دینے جارہے ہیں، تاہم بات چیت ضروری ہے ۔ہیتھ نے کہا کہ دونوں فریق کشیدگی کم کرنے کی امید رکھتے ہیں، کیونکہ وہ اپنی معیشتوں اور دنیا کی بہتری میں ایک دوسرے کے کردار کو تسلیم کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کوئی بھی فریق لڑائی کے لیے تیار نہیں ہے۔محکمہ خارجہ کے ایک سینئر اہلکار نے کہا کہ ہفتے کے دن کی ملاقاتوں کے دوران بیک وقت ہونے والے کئی معالات نے طویل بات چیت کی گنجائیش پیدا کی ، انسانی حقوق اورآبنائے تائیوان میں استحکام پر خدشات کے بارے میں بہت تفصیل سے تبادلہ خیال کیا گیا۔ہوائی میں ایسٹ ویسٹ سینٹر کے نائب صدر ستولیمائے نے کہا کہ اگلا اقدام کسی تیسرے فریق کی طرف سے بھی ہو سکتا ہے۔لیمائے نے کہاکہ اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا چین کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لیے امریکہ میں قومی قانون سازی کس طرح کی ہوگی اورکلیدی اتحادی اورشراکت دارامریکہ اورچین کے درمیان جاری اعلیٰ سطحی بات چیت کا کس طرح جائزہ لیتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ فی الوقت بلنکن کی ملاقات سے شورش زدہ امریکہ چین تعلقات میں کوئی بڑی تبدیلی ممکن نہیں ہے۔