ماں تو کہاں چلی گئی ہے … ؟
کئی برسوں سے تیری راہ دیکھ رہی ہوں،کئی برس گزر جانے کے بعد بھی نہ تجھے دیکھ پارہی ہوں اور نہ ہی سن سکتی ہوں، مجھے انتظار ہے۔ایزابیل چکیر 17ستمبر 1974ء کو پیرس کے نزدیک اورلی ائیرپورٹ پر ایک کار رینٹل فرم کی ملازم تھیں۔ جب انہوں نے اپنی لنچ بریک پر جاتے ہوئے ایک پبلک ٹیلیفون بوتھ کے قریب ایک پش چیئر میں ایک بچی دیکھی۔ ایک ساتھ جڑے ہوئے ٹیلیفون بوتھ میں ایک مرد بھی تھا، ہوسکتا ہے باپ ہو، بچی جو ’’ہیلی کٹی کمبل‘‘ میں لپٹی ہوئی تھی اس کی طرف دیکھ کر مسکرائی اور ایزابیل چکیر مزید اس کے قریب ہوگئیں چکیر جواب 45برس کی ہوچکی ہے نے پچھلے دنوں پیرس سے گفتگو میں سنڈے ٹائمز کو بتایا کہ وہ ’’میری طرف دیکھتے ہوئے مسکرا رہی تھی اور غون غون کررہی تھی‘‘۔ پش چیئر کے نیچے نیپیز، ببز، ٹالکم پائوڈر اور دودھ کی ایک بوتل سے بھرا بیگ بھی موجود تھا۔ وہ بچی کو اپنے ڈیسک پر لے آئیں جو قریب ہی تھا اور معاملہ ائیرپورٹ پولیس کے نوٹس میں لے آئیں۔ پبلک انائونسمنٹ سسٹم پر کئی بار اپیل کے باوجود کوئی بچی لینے نہ آیا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اس وقت بچی کی عمر نو ماہ تھی اس کے بعد اس بچی کو سٹیٹ نرسری کے حوالے کردیا گیا جہاں سے تقریباً ایک سال بعد اورلی کے قریب رہنے والے ایک خاندان نے گود لے لیا۔ ایملی بینڈون آج 26برس کی ہوچکی ی ہے اور یہ جاننے کیلئے بیتاب ہے کہ اسکے والدین کو کیا ہوا؟ پچھلے ہفتے اس نے ایک ویڈیو پبلک کی ہے جس میں لوگوں سے درخواست کی ہے کہ اگر وہ اسکے والدین کے بارے میں یا اسکے خاندان کے بارے میں کچھ جانتے ہوں تو وہ اس سے رابطہ کریں۔ ’’میں ایک پیار کرنے والے گھرانہ کا حصہ ہوں، دوستوں کی بھی کمی نہیں لیکن میں محسوس کرتی ہوں کہ میری زندگی تاحال مکمل نہیں۔ میری زندگی کے کچھ حصے ابھی خالی ہیں۔ ائیرپورٹ پر پائے جانے سے قبل میری زندگی ایک معمہ ہے جسے حل کرنے کیلئے میں بیتاب ہوں‘‘ ایکسین پروانس کے ایک بڑے ہوٹل میں کام کرنے والی اس 26سالہ نوجوان خاتون نے رپورٹر میھتیو کیمپبل سے اپنے خیالات شیئر کرتے ہوئے مزید بتایا کہ ’’ایسا نہیں ہے کہ میں نو ماہ تک کسی غار میں چھپائی رہی ہوں؟ یقیناً ایسے لوگ موجود ہوںگے جنہوں نے مجھے دیکھا ہوگا۔ شاید ہمارے ہمسایوں کو میں یاد ہوں؟ یا نہیں میرے حوالے سے کچھ یاد ہو؟ یہ ایسے سوالات ہیں جو مجھے پریشان رکھتے ہیں، میری زندگی ائیرپورٹ سے شروع نہیں ہوتی‘‘ ا س کی سچ جاننے کی کوشش کا آغاز 2017ء میں ہوا جب اس نے سٹیٹ ایڈاپشن ایجنسی سے اپنی تفصیلات حاصل کیں تو اسے پتہ چلا کہ چکیر نے اسے کس طرح اورلی ویسٹ ٹرمینل کے ’’آمد والے ہال‘‘ میں پایا، بچی اچھی صحت میں تھی اور اسکی عمر 9ماہ لگتی تھی۔ ایڈاپشن ہسٹری میں اس سے زیادہ کوئی تفصیل موجود نہیں ہے اسی فائل کے مطابق چھ ماہ کی پولیس تحقیقات تاکہ والدین کو تلاش کیا جاسکے نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوسکیں۔ ائیرپورٹ کی ایک خاتون کلینر کے مطابق اس نے اس دن ’’ایک خاتون جس کے بال رنگے ہوئے تھے کو ایک پش چیئر کے ساتھ دیکھا تھا جو پریشان لگتی تھی اور ایک مشین کی طرح چل رہی تھی‘‘ ، جہاں ایملی ملی تھی وہاں کی فوٹو فٹیج دستیاب نہیں ہوسکی۔جنوری 2020ء میں ایملی نے اپنا DNAٹیسٹ کروایا ہے جسکے نتائج یہ بتاتے ہیں کہ وہ نصف انڈین اور نصف یورپین ہے یہ نتیجہ اسکے لئے حیران کن نہیں ہے کیونکہ اس کی ایک حالیہ سری لنکا وزٹ میں اکثر لوگوں کا خیال تھا کہ وہ ایک لوکل خاتون ہے۔ اسی طرح کا ردعمل اس کی مراشیسی وزٹ کے دوران بھی سامنے آیا اس نے کہا کہ’’میں نے سوچا شاید یہی وہ جگہ ہے جس سے میں بی لانگ کرتی ہوں‘‘ ایملی اکثر اس بات پر سوچتی رہتی ہیں کہ جو کچھ ہوا ا س کی کیا وجوہات ہوسکتی ہیں؟ کیا کسی کے پاس درست شناختی کاغذات موجود نہیں تھے؟ کیا یہاں ویزہ اور ملک بدری کے معاملات تھے؟ ایسے سوالوں نے مجھے کئی برسوں سے گھیر رکھا ہے اور یہاں بے شمار ممکنات ہیں‘‘ ایملی بتاتی ہیں کہ ایک دفعہ انہوں نے اپنی ماں کو خواب میں ایک ایسٹروناٹ کے روپ میں دیکھا اور وہ اپنے آپ کو ائیرپورٹ پر چھوڑنے کے عمل کو ’’پیار کا ایک قدم‘‘ کہتی ہیں جو ایک ایسی ماں نے اٹھایا جو مجبور تھی تاکہ اس کی بچی کو پرورش کیلئے ایک اچھا ماحول مل جائے۔ بعض اوقات مجھے احساس ہوتا ہے کہ میرے والدین نے زندگی میں شاید زیادہ مشکلات اٹھائی ہوں گی‘‘۔ ایملی ابھی تک اس مقام پر واپس نہیں گئیں جہاں سے ازابیل چکیر نے اسے پایا تھا۔ تاہم وہ کئی دفعہ اس ائیرپورٹ سے سفر کرچکی ہیں۔ ایملی کو گود لینے والے جوڑے میں خاتون (مونیک) ایک ریٹائرڈ نرس ہیں اور مرد (فلیپ) ایک ریٹائرڈ سول سرونٹ ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ ’’ہم دونوں اسکے ساتھ کھڑے چلے آرہے ہیں اور اس بات کے خواہشمند ہیں کہ یہ اپنی زندگی کے اس خلا کو پر کرلے‘‘۔مونیک بتاتی ہیں کہ ایملی ابتدا سے ہی اس بات سے ناخوش چلی آرہی ہیں کہ انہیں اس طرح کیوں چھوڑ دیا گیا۔ آج ازابیل چکیر کا اپنا بیٹا اٹھارہ برس کا ہے ا س کاکہنا ہے کہ جب دوسرے دن اسے پتہ چلا کہ کوئی ایملی کو نہیں آیا تو اسے حیرانگی ہوئی۔ ’’میں کبھی یہ نہیں سوچ سکتی تھی کہ کوئی ایسے اس طرح بے یارومددگار چھوڑ گیا ہے؟ بظاہر یہی لگ رہا تھا کہ کوئی اسکی اچھی طرح نگہبانی کر رہا تھا‘‘۔ ان 26برسوں میں چکیر نے متعدد بار سوچا کہ نہ جانے وہ بچی کس حال میں ہے؟ حال ہی میں ایملی نے اسے فیس بک پر پیغام بھیجا (کیونکہ ایڈاپشن فائل میں اسکا نام تھا)۔ تو اس نے اسے فوری طور پر پہچان لیا اسکے چہرے پر وہی مسکراہٹ اور وہی چمکیلی آنکھیں آج کی ایملی کو دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہوتی ہے۔ ’’وہ خوش ہے، وہ ذہین ہے، ایک سے زیادہ زبانیں بولتی ہے، وہ دنیا دیکھ چکی ہے اور وہ ایک Ordinary- Extraلڑکی ہے‘‘۔ ایملی توقع کرتی ہے کہ اسکی لائف سٹوری پبلک ہوجانے سے اسے اپنے بائیو لاجیکل والدین (جنم دینے والے) تک پہنچنے میں مدد مل سکے گی۔ ایملی امید کرتی ہے کہ ’’اسکے والدین تاحیات ہونگے؟ اور کوئی نہ کوئی کہیں نہ کہیں میرے سوالوں کے جواب دے پائے گا۔ مجھے جن بھی وجوہات کی بنا پر وہاں پش چیئر میں چھوڑ دیا گیا میں انہیں تسلیم کرلوں گی۔ میں صرف سمجھنا چاہتی ہوں‘‘ ایسے حالات میں جوان ہوئے اکثر بچوں اور والدین کو گہرے رنج و الم کے مختلف مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ دعا ہے ایملی کے والدین زندہ ہوں اور مل بیٹھنے کے حالات بن جائیں۔ والدین میں سے کوئی ایک بھی اس طرح اپنی بچی کو چھوڑنے کیلئے تیار نہیں ہوسکتا لیکن یہ ایک دلچسپ اور پرپیج کہانی ہے جسکا آغاز مشکل حالات میں وجود میں آیا۔ ایک موقر برطانوی اخبار میں شائع ہونیوالی سٹوری کا انجام ایملی کی والدین سے جلد ملاقات کا پیغام ہوسکتا ہے۔ اللہ ایملی کی تمنائوں کو شرف قبولیت عطا فرمائے۔