سائنس و ٹیکنالوجی سے وحشت کیوں؟
سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کا ترجمہ علم و ہنر ہے جس کے حصول کی ہمیں بار بار تاکید کی گئی لیکن ہم نے حسب عادت اِس پر تنازعہ کھڑا کر لیا حالانکہ تاریخ بتاتی ہے کہ کسی بھی قسم کے فرامین، فرمودات اور فتوے سائنس اور ٹیکنالوجی کا راستہ نہیں روک سکتے کہ ان کی طاقت ہر قسم کی مزاحمت کو روند کے رکھ دیتی ہے۔ کیا یہ دلچسپ حقیقت نہیں کہ کل تک تصویر کو حرام قرار دینے والی مائنڈسیٹ کے لئے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ آج حلال ہے حالانکہ یہ تصویر کے بغیر ممکن نہیں۔ ان کے بغیر آپ حج و عمرے کی سعادت حاصل نہیں کر سکتے اور نہ ہی زیارتوں کے لئے جاسکتے ہیں۔ کرنسی نوٹ کسے پسند نہیں؟ ہمارا یتیم سا رروپیہ ہو تو اُس پر بابائے قوم کی تصویر ہوتی ہے، ڈالر ہو تو اس پر امریکن رہنماؤں کی اور یہی حال باقی کرنسیوں کا ہے۔ یعنی تصویریں ہی تصویریں، آپ کو یہ سن کر شاید ہنسی آئے کہ جب ٹریکٹر نیا نیا آیا تو زبان زد عام تھا کہ یہ گوروں کی سازش ہے اور اس کا ہل ہماری زمینیں جلا دے گا۔ صرف چند عشرے قبل جب لاہور کے رائیونڈ میں بجلی پہنچانے کی کوشش کی گئی تو مقامی لوگوں نے خنجر، نیزے اور لاٹھیاں نکال لیں کہ ہم حکومت کو اپنے بچے مارنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ جب انگریز برصغیر میں ریلوے کی پٹری بچھا رہا تھا تو عوام پہ مفروضہ عام تھا کہ انگریز ہمارے ملک میں لوہے کے پٹے اس لیے بچھا رہا ہے تاکہ کل ضرورت محسوس ہو تو ہندوستان کو گھسیٹ کر انگلستان لے جاسکے۔ انتہا یہ کہ جب ریلوے کا باقاعدہ آغاز ہوا تو یہ کہانی بہت مقبول تھی کہ صاحب لوگوں نے لوہے کے ڈبے میں جن قید کر رکھے ہیں جو ابلتا ہوا پانی پیتے اور دہکتے ہوئے کوئلے کھاتے ہیں۔ جب قید سے رہائی کے لئے زور لگاتے ہیں تو ریل چلنے لگتی ہے۔ یہ تھا بھاپ کے انجن کا فہم۔ غالب جیسا جینئس ماچس دیکھ کر عش عش کر اٹھا تھا کہ واہ کیا قوم ہے انگریز جو آگ کو جیب میں ڈالے پھرتی ہے۔ پہلی بار ہینڈ پمپ دیکھا تو کنوؤں کے عادی ہوش کھو بیٹھے تھے اور اسے ممبا کہتے تھے۔ اہل مغرب بھی جب تک ذہنی طور پر پسماندہ اور مسخ شدہ تھے تو علم و ہنر کے لیے ایسی ہی مزاحمت کے عادی تھے۔ انگلینڈ میں جب چھری کانٹے کا استعمال شروع ہوا تو پادریوں نے انہیں استعمال کرنے سے انکار کر دیا۔ جس نے متحرک تصویر متعارف کراکے سنیما کی بنیاد رکھی اسے پولس اٹھا کر لے گئی تھی۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جتنی جہالت ہوگی سائنس اور ٹیکنالوجی کی اتنی ہی مخالفت و مزاحمت ہوگی۔ جیسے جیسے دماغ روشن ہوتا جائے گا، ویسے ویسے رویے تبدیل ہوتے جائیں گے اور جہاں تک تعلق ہے سائنس اور ٹیکنالوجی کے نقصانات کا تو ایسی سوچ ہی احمقانہ ہے کیونکہ سائنس اور ٹیکنالوجی معصوم، بے ضرر اور سو فیصد بے قصور ہے۔ مجرم، ضرر رساں اور قصور وار صرف وہ ہیں جو ان کا غلط استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً اگر آپ ہیروشیما، ناگاساکی پر ایٹم بم گراتے ہیں تو اس میں بیچاری ایٹمی توانائی کا بھلا کیا قصور؟ اگر کوئی لحیم شحیم صحتمند آدمی اپنی جسمانی طاقت کو غنڈہ گردی کے لئے استعمال کرے تو وہ شخص قابل مذمت ہے نہ کہ اس کی جسمانی طاقت۔ لہٰذا حقائق سے منہ موڑ کر سائنس و ٹیکنالوجی کی مخالفت کرنا حماقت ہے۔