سعودی مصنف نے اپنی پسندیدہ کار فروخت کے لیے کیوں پیش کی؟
ریاض،مئی۔ سعودی عرب کے ایک مصنف اور محقق انور آل خلیل نے مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ ’ٹویٹر‘ پرایک ٹویٹ میں اپنی دیرینہ کار کی فروخت کا اعلان کیا تو اس پراْنہیں زبردست رد عمل ملا ہے۔ انور نے یہ کار سنہ 1983ء میں خریدی تھی اور اس پر ملک کے اندر طویل سفر کیے۔’العربیہ ڈاٹ نیٹ‘ سے بات کرتے ہوئیانور آل خلیل نے وضاحت کی کہ میں ’جی ایم سی‘ گاڑی کو اپنا سب سے اچھا دوست سمجھتا ہوں۔ میرے دوستوں کے نزدیک مجھے اس گاڑی کا جنون ہے۔ میں نے اپنی اس کار کے ذریعے پہاڑوں اور وادیوں، ریگستانوں اور میدانوں کا سفر کیا۔ میں اسی کار کے ذریعے اپنے ثقافتی سفر کے دوران سعودی عرب میں گھومتا رہا، نوشتہ جات اور نوادرات کی تلاش اسی کار کے ذریعے کی۔ اس کی مدد سے میں مملکت میں ایسی جگہوں تک بھی پہنچا جہاں پہلے کوئی نہیں جا سکا تھا۔سعودی مصنف کا یہ بھی ماننا ہے کہ کچھ بے جان چیزیں انسان کے ساتھ اس کے تعلقات کو روحانی سطح تک لے جاتی ہیں۔جیسا کہ جیمز بن قنع کے ساتھ ہے۔انہوں نے انکشاف کیا میں نے اسی کار کے ذریعے ابہا سے مکہ اور طیبہ طیبہ تک آرام دہ سفرکیا۔ ہماری مرحوم والدہ اس سفرمیں ہماری رہ نما تھیں۔انہوں نے کہا کہ میری خواہش تھی کہ گاڑی میرے ساتھ رہے۔ میرے بچیبھی اسے استعمال کریں۔ اسے فروخت کے لیے پیش کرنے کی وجوہات کے بارے میں انہوں نے کہا کہ میرے عظیم ناول نگار دوست پروفیسر احمد الدویحی نے مجھ سے اس بارے میں پوچھا تو میں نے جواب دیا کہ اس کی وجہ وقت کی دھڑکنیں ہیں اور یہ دھنک ستر کی دہائی میں بھٹکنے والوں سے زیادہ مہلک ہیں۔جہاں تک مشہور کہاوت کا تعلق ہے کہ ادب کے ہنر نے اسے متاثر کیا۔ میرے خیال میں یہ ایک نسبی وصف ہے۔ ہر ادیب محروم نہیں ہوتا اور ہر ادیب امیر بھی نہیں ہوتا۔آل خلیل کے پاس موجود نوادرات میں ان کا ’ مامیا 645 کیمرہ بھی ہے جسے وہ اپنے ہر سفر میں ساتھ رکھتے۔ چٹانوں اور دیہاتوں کی تصاویر لیتے اور انہیں جرائد اور اخبارات کے صفحات کی زینت بناتے۔ان کے قیمتی سامان میں ایک ویسٹ اینڈ ام صلیب گھڑی بھی ہے جو ان کے والد مرحوم نے انہیں پرائمری اسکول کی چھٹی جماعت سے کامیابی کے موقع پر بطور انعام دی تھی۔