دیپیکا پاڈوکون: ماڈلنگ، ایکٹنگ اور تنازعات سے لے کر کانز فلم فیسٹیول تک کا سفر
ممبئی:مئی۔’میں اپنی زندگی کے ہر سین میں سٹار ہوں۔‘ 2010 میں ہندی فلم ’بریک کے بعد‘ کا یہ ڈائیلاگ دیپیکا پاڈوکون کا ہے اور آج 12 سال بعد یہ فلمی ڈائیلاگ ان کی حقیقت بن چکا ہے۔ 18 سال کی نئی ماڈل جو ٹی وی اشتہارات میں نظر آتی تھیں، سب سے پہلے ہمیش ریشمیا کی میوزک ویڈیو میں نظر آئیں۔ آج وہی دیپیکا پاڈوکون ہندی فلم انڈسٹری کی ٹاپ ہیروئنز میں سے ایک ہیں۔ وہ ہالی ووڈ میں کام کر چکی ہیں، ان کا اپنا پروڈکشن ہاؤس ہے اور اس سال دیپیکا کا نام ٹائم میگزین کی ٹائم امپیکٹ 100 کی فہرست میں شامل ہو گیا ہے۔ آج دیپیکا کی شبیہہ نہ صرف ایک مشہور فلم سٹار بلکہ ایک فنکار کے طور پر بھی ہے جو فلموں سے باہر بھی بہت سے معاملات پر اپنے خیالات رکھتی ہیں۔ جب 2020 میں دلی میں جواہر لال نہرو یونیورسٹی یعنی جے این یو میں طلباء پر حملے کا واقعہ ہوا تو وہ یونیورسٹی جا کر طلباء کے ساتھ کھڑی نظر آئیں۔ وہ اپنے ڈپریشن اور ذہنی صحت کے بارے میں کھل کر بات کرتی ہیں۔ کئی بار وہ فلم کے سیٹ پر ایک تھراپسٹ کو اپنے ساتھ رکھتی ہیں اوراس بات کو چھپاتی نہیں ہیں۔ فلموں کی بات کریں تو ان کی شبیہہ ایک محنتی اور پیشہ ور فنکار کی ہے۔ ذرا تصور کریں کہ ایک فلم کا سیٹ ہے جہاں ایک بڑی سٹار اپنے ساتھ ایک پنسل باکس لیکر آتی ہے، رولر اور پنسلوں کے ساتھ اپنے مکالمے کے نیچے لکیریں کھینچتی ہے، ہر کردار کو الگ رنگ دیکر اور ہر ایک کے مکالمے کو مختلف رنگوں میں ڈھالتی ہے تاکہ جب وہ سکرپٹ دیکھے تو ہر کردار اپنے رنگ کے ساتھ اس کی آنکھوں کے سامنے رہے۔ کچھ ایسی ہی ہیں دیپیکا پاڈوکون اور اس وقت دیپیکا واقعی اپنی زندگی کے ہر سین میں سٹار ہیں۔ اس بار کانز فلم فیسٹیول میں ان کے سٹارڈم کو ایک نئی عالمی جہت ملی ہے۔ اس بار جن فنکاروں کو جیوری میں رکھا گیا ہے ان میں دیپیکا پڈوکون بھی شامل ہیں۔ انڈیا سے اب تک صرف ایشوریہ رائے، شیکھر کپور، ودیا بالن، نندیتا داس اور شرمیلا ٹیگور ہی جیوری کا حصہ رہے ہیں۔ دیپیکا کی کہانی بھی ہندی فلم کے سکرین پلے سے ملتی جلتی ہے۔ ایک ایسا سکرین پلے جس میں انٹری دھماکے دار ہے لیکن کہانی پھر ڈھلان کی طرف جانے لگتی ہے اور جیسے جیسے فلم کلائمکس کی طرف بڑھتی ہے، سکرین پلے میں زبردست انرجی آنے لگتی ہے اور پھر ایک دھماکے دار ری انٹری ہوتی ہے، دیپیکا کی کہانی بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ لوگوں نے پہلی بار 18 سالہ دیپیکا کو ٹی وی پر لیرل صابن اور کلوز اپ ٹوتھ پیسٹ کے اشتہارات میں بطور ایک ماڈل دیکھا تھا۔ ناظرین کو ہمیش ریشمیا کا وہ میوزک ویڈیو بھی یاد ہوگا جب ہمیش ایک بڑے سٹار تھے اور انڈسٹری میں نئی آنے والی دیپیکا نے ان کی ویڈیو میں کام کیا تھا۔ اور پھر انھوں نے ہندی فلموں میں اس وقت دھماکے دار اینٹری کی جب 2007 میں شاہ رخ خان کے ساتھ وہ فلم ’اوم شانتی اوم‘ میں نظر آئیں جس میں وہ بطور شانتی اور سینڈی ڈبل رول میں تھیں۔ ’اوم شانتی اوم‘ کے اس کردار سے لے کر فلم ’گہرائیاں‘ تک، دیپیکا نے اپنی رینج اور قابلیت کا بھر پور ثبوت دیا۔ ان کے مختلف کرداروں میں ہر طرح کے رنگ اور رویے نظر آئے ہیں۔ کبھی وہ فلم ’رام لیلا‘ (2013) کی تیز مزاج لیلا ہوتی ہیں، جو کہتی ہے، ’بے شرم، گستاخ، خود غرض ہوتا ہے، لیکن پیار تو ایسا ہوتا ہے‘۔ تو کبھی وہ فلم ’تلاش‘ (2015) کی تارا ہیں، جو محبت کے معاملے میں مخمصے میں ہے، تو کبھی پیار میں ڈوبی مستانی۔ کبھی وہ ’یہ جوانی ہے دیوانی‘ کی اندر سے نرم، نازک لیکن مضبوط نینا ہے جو رہتی تو آج میں ہے لیکن اس کے دل کے کسی کونے میں ماضی کی یادیں دفن ہیں، جو یقین کرتی ہے کہ ’یادیں مٹھائی کے ڈبے‘کی طرح ہوتی ہیں۔ جو ایک بار کھولا تو آپ صرف ایک ٹکڑا نہیں کھا سکیں گے۔ ’پیکو‘، ’چھپاک‘، ’گہرائیاں‘، ’پدماوت‘، ’ہیپی نیو ایئر‘، ’چنائی ایکسپریس‘، گزشتہ 10 سالوں میں دیپیکا نے ہر طرح کی فلمیں اور کردار ادا کیے اور خود کو ثابت کیا۔ لیکن دیپیکا کی یہ کامیابی دھیمی آنچ پر ہانڈی میں پکائی جانے والی کھیر کی طرح ہے، جو آہستہ آہستہ ابلتی ہے اور پھر اس کی مٹھاس کو تحلیل کر دیتی ہے۔ ہم نے دیپیکا کا وہ دور بھی دیکھا ہے جب ان کی فلمیں نہیں چل رہی تھیں۔ وہ اپنی ذاتی زندگی میں ایک بُرے دور سے گزر رہی تھیں۔ شروع میں، بہت سے لوگ ان کے جنوبی انڈین لہجے کی وجہ سے انھیں اپنی فلموں میں کاسٹ کرنا بھی نہیں چاہتے تھے۔ چند فلموں کے علاوہ 2008 سے 2012 کے درمیان دیپیکا نے کچھ ایسی فلمیں کیں، جس کے بعد ان کی فلم کے انتخاب کی سمجھ پر سوال اٹھنے لگے۔ لیکن اپنی محنت، لگن اور پیشہ ورانہ رویہ کی وجہ سے دیپیکا نے زبردست واپسی کی۔ بالکل ایک ایسے کھلاڑی کی طرح جو میچ میں اچھی شروعات کرتا ہے، لیکن اس کے سامنے رکاوٹیں آتی رہتی ہیں اور دوڑ میں پیچھے رہ جاتا ہے لیکن کبھی ہار نہیں مانتا، دیپیکا بھی اس کھلاڑی کی طرح ہے۔ دیپیکا واقعی ایک کھلاڑی ہیں۔ 5 جنوری 1986 کو ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہیگن میں پیدا ہونے والی دیپیکا قومی سطح کی بیڈمنٹن کھلاڑی رہ چکی ہیں۔ دیپیکا کے والد پرکاش پاڈوکون انڈیا کے نمبر ون بیڈمنٹن کھلاڑی تھے، اسی وراثت کو آگے بڑھاتے ہوئے دیپیکا نے بھی اس کھیل کو اپنایا اور قومی سطح پر کھیلیں۔ برسوں سے ان کا معمول یہ تھا کہ وہ صبح سویرے پریکٹس کے لیے اٹھتیں اور پھر سکول جاتیں۔ لیکن آہستہ آہستہ انھیں ماڈلنگ میں دلچسپی ہونے لگی اور انھوں نے سکول کے زمانے سے ہی بطور ماڈل کام کرنا شروع کر دیا۔ لیکن اس کھلاڑی کی تربیت اس کے فلمی کیریئر میں بھی نظر آتی ہے، خاص طور پر اس وقت جب انھوں نے ناکامی کا دور بھی دیکھا ہو۔ ہارپر بازار کے ساتھ ایک انٹرویو میں دیپیکا نے کہا تھا: ’ایک کھلاڑی کے طور پر آپ آخر تک لڑتے ہیں۔ جب آپ کوئی میچ کھیلتے ہیں، تو آپ اس کھیل کو درمیان میں نہیں چھوڑتے، آپ آخر تک کھیلتے ہیں کیونکہ آپ نہیں جانتے کہ آخر میں کیا ہو جائے۔‘ ایسا نہیں ہے کہ سٹار والی امیج کے ساتھ دیپیکا نے کبھی خود کو تنہا نہیں پایا۔ 2015 میں دیپیکا نے اس وقت سب کو حیران کر دیا جب انھوں نے بتایا کہ وہ ڈپریشن کا شکار ہیں اور اپنی تھراپی کرا رہی تھیں۔ 2019 میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے دیپیکا نے کہا تھا: ’2013 میری فلموں کے حوالے سے بہت ہٹ رہا، یہ میرے لیے ایک اچھا لیکن بہت مصروف سال تھا۔ مجھے یاد ہے کہ 15 فروری 2014 کی صبح جب میں بیدار ہوئی تو مجھے ایک عجیب سا احساس ہو رہا تھا، مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے، میں کبھی بھی رو پڑتی تھی اور خود کو بہت تنہا محسوس کر رہی تھی۔‘ وہ کہتی ہیں کہ ’میں نے اپنے وجود پر سوال اٹھانا شروع کر دیے۔ میں نہیں جانتی تھی کہ یہ دراصل ڈپریشن تھا۔ میں نے دوائیں نہیں لیں کیونکہ میں نے سنا تھا کہ وہ نشہ آور ہوتی ہیں اور انکی لت لگ جاتی ہے۔ مجھے ڈپریشن کے بارے میں کچھ نہیں معلوم تھا،ڈپریشن ایک بدنما داغ سمجھا جاتا تھا۔ میں یہ سب کسی کو نہیں بتا سکتی تھی، لیکن پھر میں نے سوچا کہ مجھے اس پر کھل کر بات کرنی چاہیے۔‘ اس کے بعد دیپیکا نے نہ صرف ڈپریشن کے بارے میں بات کرنا شروع کی بلکہ 2015 میں ’لیو لو لائف‘ کے نام سے ایک تنظیم بھی بنائی تاکہ دماغی صحت کے بارے میں آگاہی پھیلائی جائے اور لوگوں کی مدد کی جا سکے۔ دیپیکا خود بھی ایک پروڈیوسر ہیں اور اپنے انٹرویوز میں دیپیکا نے کئی بار کہا ہے کہ فلم کے سیٹ پر ہر ایک کے لیے دماغی صحت کا ماہر موجود ہونا چاہیے جو فلم کے عملے کی مدد کر سکے اور ہر ایک کے کام اور نجی زندگی میں توازن ہونا چاہیے۔ دیپیکا ان چند اداکاراؤں میں سے ایک ہیں جو پروڈکشن میں بھی کام کر رہی ہیں۔ دیپیکا کے پروڈکشن ہاؤس کا نام ’کا پروڈکشن‘ ہے۔ مصری زبان میں اس کا مطلب روح ہے، خاص طور پر وہ حصہ جسے آپ اپنے جانے کے بعد چھوڑ دیتے ہیں۔ انھوں نے اپنے پروڈکشن ہاؤس کے تحت تیزاب حملوں پر فلم ’چھپاک‘ اور ’83‘ بھی بنائی ہے۔ دیپیکا کا سیاست میں تو کبھی دخل نہیں رہا لیکن 2020 میں جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے تنازع کے بعد جب وہ یونیورسٹی کے طلباء سے ملنے گئیں تو بہت سے لوگوں نے اسے ایک طرح کیا سیاسی قدم قرار دیا۔ دیپیکا نے تب کہا تھا کہ ’مجھے یہ دیکھ کر تکلیف ہوئی کہ طالب علموں کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا۔ امید کرتی ہوں کہ یہ معمول کی بات نہیں بن جائے گی۔ یہ خوفناک ہے۔ ہمارے ملک کی بنیاد اس طرح نہیں رکھی گئی تھیں۔‘ اس پر کچھ نے دیپیکا کی ہمت کی تعریف کی تو کچھ نے احتجاج بھی کیا۔ کسی بھی بڑی شخصیت کی طرح دیپیکا کو تعریف کے ساتھ کئی تنازعات کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے۔ 2015 میں، دیپیکا نے ووگ میگزین کے لیے ’ہیش ٹیگ مائی چوائس‘ کے نام سے ایک ویڈیو شوٹ کیا گیا۔ اس ویڈیو میں وہ خواتین کے حقوق اور اپنی شرائط پر زندگی گزارنے کی بات کر رہی تھیں۔ ویڈیو میں دیپیکا نے یہ بھی کہا تھا کہ ’شادی سے باہر جنسی تعلقات رکھنا، شادی کے بغیر جنسی تعلقات رکھنا اور شادی نہ کرنا ان کی مرضی ہے۔‘ تب کئی لوگوں نے دیپیکا کو تنقید کا نشانہ بنایا کہ ’خواتین کے حقوق کی بات کرنا ایک بات ہے لیکن شادی سے باہر جنسی تعلق کی بات کو جائز قرار دینا کہاں درست ہے، چاہے وہ مرد ہو یا عورت۔‘ فلموں کی بات کی جائے تو فلم ’کاک ٹیل‘ جیسی ان کی فلم کے انتخاب پر بھی سوالات اٹھائے گئے۔ یہ فلم ہٹ رہی اور دیپیکا کے کیرئیر کا ٹرننگ پوائنٹ بھی ثابت ہوئی۔ لیکن بہت سے فلمی ناقدین نے اسے ایک رجعت پسند فلم قرار دیا اور ایک خاتون آئیکن ہونے کے ناطے، بہت سے لوگوں نے یہ سوال بھی کیا کہ کیا دیپیکا کو ایسا کردار ادا کرنا چاہیے تھا جس میں وہ اپنی شناخت اور آزادی کھونے کی قیمت پر ایک ’سنسکاری‘ لڑکی بننا چاہتی ہے وہ بھی صرف ایک لڑکے کے لیے۔ دیپیکا سوال اٹھانے والوں کو جواب دینا بھی جانتی ہیں۔ رنویر سنگھ کے ساتھ شادی کے بعد جب انھوں نے فلم ‘چھپاک’ بنائی تو ایک صحافی نے ان سے سوال کیا تھا کہ ’فلم آپ نے پروڈیوس کی ہے، اگر دیکھا جائے تو رنویر بھی پروڈیوسر بن گئے ہیں، کیونکہ گھر کا ہی پیسہ ہے۔‘ جس کے جواب میں دیپیکا نے کہا تھا کہ ’سوری سر، یہ میرا پیسہ ہے۔‘ یہ میرا پیسہ ہے۔۔۔ یہ کہنے تک کا سفر دیپیکا کا حاصل سمجھا جا سکتا ہے۔ایک ایسا سفر جو ماڈلنگ اور چھوٹے اشتہارات سے شروع ہوا تھا۔ مجھے اشتہارات سے متعلق ایک دلچسپ قصہ یاد آتا ہے۔ کلوز اپ ٹوتھ پیسٹ کا اشتہار دیپیکا کے ابتدائی دور کا تھا۔ جس میں وہ ٹوتھ پیسٹ کو دیکھ کر اس کے ساتھ ڈانس کرتی ہیں۔ شوٹنگ کے دوران ٹوتھ پیسٹ ٹیوب دراصل وہاں تھی ہی نہیں۔شوٹنگ کے بعد وہ اینیمیٹ کیا گیا تھا لیکن جب شوٹنگ ہو رہی تھی تو اسے درحقیقت انھیں ایک چھڑی کو دیکھ کر اپنی آنکھوں کی حرکات ریکارڈ کروانی تھیں تھی جس پر نشانات لگے ہوئے تھے کہ آنکھوں کو کیسے حرکت دینی ہے۔ یہ شاید دیپیکا کا ہنر اور کیمرے کے سامنے اعتماد کی ابتدائی علامت تھی۔ آج وہی دیپیکا دنیا کے بڑے برانڈز کے اشتہارات کرتی ہیں۔ وہ پہلی بالی ووڈ اداکارہ ہیں جنھوں نے ’لوئی وٹون‘ جیسے برانڈ کے لیے کام کیا۔ 2018 میں وہ ٹائم کی سب سے زیادہ با اثر لوگوں کی فہرست میں اور 2022 میں ’ہنڈریڈ ٹائم امپیکٹ‘ کی فہرست میں شامل تھیں۔ یعنی امپیکٹ ٹو امپیکٹ کا سفر دیپیکا نے چند سالوں میں طے کر لیا ہے۔ ان کا یہ سفر ان کے کرداروں میں بھی نظر آتا ہے۔ اس میں ’پیکو‘ کی بیٹی نظر آرہی ہے جو سنگل ہے۔ وہ رشتے بھی نہیں بناتی اور اپنے والد کے ساتھ رہتی ہے، تاکہ ان کی دیکھ بھال کر سکے کہ وہ تنہا نہ رہ جائیں۔ اس کا اثر ’چھپاک‘ کی مالتی میں نظر آتا ہے جو تیزاب کے حملے کے بعد بکھر جاتی ہے۔ مالتی (دیپیکا) جو ایک سین میں حملے کے بعد ٹوٹی ہوئی ہے، اپنا تمام پرانا سامان، بھڑکیلے کپڑے، بالیاں پھینک دینا چاہتی ہے۔ لیکن وہ زندگی کا سفر دوبارہ شروع کرتی ہے۔ تیزاب حملے کا شکار ہونے والی مالتی کے چہرے پر درد اور تڑپ تو نظر آتی ہے، لیکن وہ لڑکی کبھی بیچاری نظر نہیں آتی۔ ایسے کرداروں کا سفر اپنے ساتھ لے کر دیپیکا پاڈوکون آج کانز فلم فیسٹیول میں پہنچ گئی ہیں۔ اوم شانتی اوم سے کانز تک… تو یہاں وہی ڈائیلاگ یاد آتا جو شروع میں لکھا تھا: ’میں اپنی زندگی کے ہر سین میں ایک سٹار ہوں۔‘