یوکرینی شہروں پر روسی حملوں میں شدت، مزید فوجیوں کی تعیناتی

کیف/ماسکو،اپریل۔روس مشرقی یوکرین کے شہروں اور قصبوں پر بھرپور طاقت سے حملے کر رہا ہے۔ روس نے فضائی حملوں کے ساتھ ساتھ زمینی دستوں کی تعداد میں بھی اضافہ کر دیا ہے۔روس یوکرین کو دو جنگی میدانوں میں بانٹنا چاہتا ہے۔ اس مقصد کے لیے اب وہ کوئلے کی کانوں اور مشرقی یوکرین میں صنعتی علاقوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔یوکرین کے مشرقی خطے ڈونباس میں شدید جنگ کا آغاز ہو چکا ہے۔ اگر روس کو اس عسکری محاذ پر کامیابی ہوتی ہے تو یہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے لیے ایک بڑی کامیابی ہو گی، جو اب تک یوکرینی دارالحکومت کییف پر قبضہ کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق اس جنگ میں بڑی تعداد میں روسی فوجی مارے جا چکے ہیں۔
ماریوپول کے آخری یوکرینی سپاہی:ڈونباس کے بندرگای شہر ماریوپول میں یوکرینی فوجیوں کا کہنا ہے کہ روسی فوج سٹیل پلانٹ پر شدید بمباری کر رہی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ اس سٹیل پلانٹ کا دفاع کرنے والے یوکرینی فوجی اس شہر کے آخری محافظ بھی ہیں۔ روس کی جانب سے یہاں ایک ہسپتال کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے، جہاں سینکڑوں شہریوں نے پناہ لی ہوئی تھی۔یوکرینی جنرل سٹاف کا کہنا ہے کہ روس مشرقی یوکرین کے کئی علاقوں پر حملے کر رہا ہے۔ جنرل سٹاف نے کہا کہ اس وقت روس ماریوپول کی سٹیل مل کا دفاع کرنے والے یوکرینی فوجیوں کو شکست دینا چاہتا ہے۔یوکرین کے مشرقی شہر خارکییف اور کراماتورسک بھی روس کے طاقت ور حملوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ روس کا کہنا ہے کہ اس نے زاپوریشیا اور ڈنپرو پر بھی میزائل حملے کیے ہیں۔روس کی وزارت دفاع کے ترجمان میجر جنرل ایگور کوناشینکوف کا کہنا ہے کہ روسی فوجیوں نے کئی شہروں میں یوکرین کے عسکری مراکز کو بھی نشانہ بنایا ہے۔روس اور یوکرین دونوں کی جانب سے مشرقی یوکرین میں پیر کو شروع ہونے والے روسی حملوں کو اس جنگ کا ایک نیا مرحلہ قرار دیا گیا ہے۔
روس بھر پور طاقت کا استعمال کر رہا ہے:یوکرینی صدر زیلنسکی کا کہنا ہے کہ روسی فوج اپنی پوری عسکری صلاحیت کے ساتھ یوکرینی شہروں پر حملے کر رہی ہے۔ قوم سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ روس دعویٰ کرتا ہے کہ عام شہریوں کو نشانہ نہیں بنایا جا رہا لیکن روس رہائشی علاقوں اور عام شہریوں کو مسلسل ٹارگٹ کر رہا ہے، تاریخ میں روسی فوج کا نام دنیا کی وحشی ترین اور غیر انسانی فوج کے طور پر لکھا جائے گا۔‘‘روس اگر ڈونباس پر قبضہ کر لیتا ہے تو یوکرین لوہے اور بھاری ساز و سامان کی فیکٹریوں کے ساتھ ساتھ کوئلے کے بڑے ذخائر سے بھی محروم ہو جائے گا۔کچھ ہفتوں قبل جب روس نے کییف پر قبضہ کرنے کے آپریشن کو روک دیا تھا تب کریملن کا کہنا تھا کہ ماسکو کا اصل مقصد روسی زبان بولنے والے ڈونباس خطے پر قبضہ کرنا ہے۔ ڈونباس میں ماسکو نواز علیحدگی پسند گزشتہ آٹھ سالوں سے یوکرینی فوجیوں کے ساتھ حالت جنگ میں ہیں۔ایک یورپی اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ روس کے پاس ڈونباس میں دس ہزار سے بیس ہزار غیر ملکی جنگجو بھی ہیں۔ ان میں روسی پرائیویٹ کمپنی ویگنر گروپ کے اور شام اور لیبیا میں روس کی پراکسی جنگ لڑنے والے بھی شامل ہیں۔

 

Related Articles