فرانس: صدارتی انتخابات میں ماکروں کو لے پین سے سخت مقابلے کا سامنا

پیرس،اپریل۔فرانس میں 24 اپریل کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں صدر ایمانوئل ماکروں اور میرین لے پین ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں۔ ماکروں کا کہنا ہے کہ آئندہ دو ہفتے فرانس کے لئے "فیصلہ کن” ہوں گے۔اتوار کے روز ہونے والی ووٹنگ کے پہلے مرحلے میں صدر ایمانوئل ماکروں اور انتہائی دائیں بازو کی رہنما مارین لے پین نے سب سے زیادہ ووٹ حاصل کیے۔ ایگزٹ پول کے نتائج کے مطابق عہدہ صدارت کے لیے 12امیدواروں میں یہ دونوں سر فہرست رہے۔ اور اب فرانس کے اگلے صدر کے عہدے کے لیے ان دونوں کے درمیان ہی اصل مقابلہ ہوگا۔فرانس کے اعتدال پسند صدر ایمانوئل ماکروں ان انتخابات میں دوبارہ امیدوار ہیں۔ماکروں کا موجودہ دور اقتدار اتار چڑھاؤ کا شکار رہا ہے۔ سن 2018 میں نام نہاد ییلو ویسٹ‘ احتجاجی تحریک کا جنم ماکروں کی کاروبار دوست پالیسیوں اور امیروں کے لیے ٹیکسوں میں کٹوتی کے نتیجے میں ہوا۔ اپنے دور اقتدار کے اختتامی مرحلے کے دوران بھی انہیں رائے عامہ کے جائزوں میں برتری حاصل ہے۔دو ہفتے قبل تک ماکروں نے روایتی انتخابی مہم پر توجہ دینے کے بجائے نمایاں طور پر روس اور یوکرین کے درمیان جنگ کو رکوانے کے لیے سفارتی کوششوں کو ترجیح دے رکھی تھی۔ماکروں کی حریف دائیں بازو کی رہنما مارین لے پین ہیں۔ انہوں نے سن 2017 کے صدارتی انتخابات میں بھی مقابلہ کیا تھا۔ماکروں کے برعکس مارین لے پین ملک میں مہنگائی اور آمدنی پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے کئی مہینوں سے انتخابی مہم چلا رہی ہیں۔لے پین کو تاہم سن 2017 کے انتخابات کے دوران یورپی یونین اور نیٹو کی مخالفت کے حوالے سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔جو یوکرین پر روس کے فوجی حملے کے خلاف دو اہم فریق ہیں۔لے پین نے عوامی مقامات پر مسلم خواتین کے اسکارف پہننے پر پابندی کے حق میں بیان دے کر بھی تنازع پیدا کردیا تھا۔ وہ حلال اور کوشر گوشت سے بھی نجات حاصل کرنے کے حق میں ہیں۔ انہوں نے یورپ کے باہر سے مہاجرت کو کم کرنے کے حوالے سے بھی مہم چلائی تھی۔فرانس میں صدارتی الیکشن کا اگلا اور دوسرا دور اتوار 24اپریل کو ہوگا۔اس انتخابات کے لیے 48.7ملین رائے دہندگان نے اپنے نام اندراج کرائے ہیں لیکن یہ دیکھنا باقی ہے کہ آیا دوسرے دور میں ووٹروں کی شراکت میں اضافہ ہوگا یا نہیں۔اگلے چند ہفتوں کے دوران امیدوار اور بالخصوص ماکروں زور دار مہم چلائیں گے کیونکہ وہ دوسری مرتبہ عہدہ صدارت پر فائز ہونا چاہتے ہیں۔اتوار کے روز جاری اعداد و شمار سے اندازہ ہوتا ہے کہ دوسرا دور کافی کانٹے کا رہے گا۔ایگز ٹ پول کرانے والی ایجنسی Fiducial -Ifopکا کہنا ہے کہ ماکروں کو 51 فیصد جب کہ لے پین کو 49فیصد ووٹ مل سکتے ہیں۔ ایک دوسری ایجنسی ایلابے گروپ کے مطابق ماکرو ں کو52 فیصد اور لے پین کو 48فیصد ووٹ ملنے کی توقع ہے۔ماکروں نے شہریوں سے دائیں بازو کے امیدوار کو شکست دینے کی اپیل کرتے ہوئے کہا پہلے دور کی ووٹنگ کے بعد ابھی کچھ بھی فیصلہ نہیں ہوا ہے۔لے پین نے کہا کہ صدارتی الیکشن کا دوسرا دور ووٹروں کو”مستقبل کے لیے دو مخالف نظریات میں سے انتخاب” کرنے کا موقع فراہم کرے گا۔لے پین کا کہنا تھا،”24اپریل کو جو کچھ داو پر لگا ہے وہ حالات کا انتخاب نہیں ہوگا بلکہ وہ سماج کا انتخاب،تہذیب کا انتخاب ہوگا۔”پہلے مرحلے میں پیچھے رہ جانے والے بعض دیگر امیدواروں نے بھی لے پین کی تائید کی ہے۔یوکرین کی جنگ میں فرانس کا ردعمل، دو سال سے کورونا کی عالمی وبا کے نتیجے میں صحت عامہ کے نظام پر بڑھنے والا دباؤ اور معاشی معاملات فرانسیسی ووٹروں کے لیے اہم ترین موضوعات ہیں۔ اس کے علاوہ توانائی اور خوراک کی قیمتوں میں اضافہ اہم ترین موضوعات میں شامل ہیں۔

 

Related Articles