جنیوا: عالمی ادارے نے بوچا کے مبینہ جنگی جرائم کے ثبوت اکٹھا کرنا شروع کر دیے
کیف/جنیوا،اپریل۔ انسانی حقوق کے عالمی ادارے کے ہائی کمشنر کے دفتر نے کہا ہے کہ یوکرین کے قصبے، بوچا میں روسی افواج کے ہاتھوں سرزد ہونے والے مبینہ جنگی جرائم کا ثبوت اکٹھا کیا جارہا ہے۔اقوام متحدہ کی حقوقِ انسانی کی سربراہ، مشیل باچلے نے کیف کے دارالحکومت کے مضافات اور بوچا قصبے کی سڑکوں پر پڑی شہریوں کی لاشوں کے خوفناک مناظر پر شدید اظہار افسوس کیا ہے۔ ان کی ترجمان، لز تھروسل نے کہا ہے کہ لاشوں کی اس طرح بے حرمتی انتہائی پریشان کن معاملہ ہے۔تھروسل نے اس جانب توجہ مبذول کرائی کہ ہلاک ہونے والے افراد کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے، جب کہ کچھ خواتین کی نعشیں نیم برہنہ ملی ہیں۔ جلی ہوئی لاشوں سے یہ پختہ گمان ہوتا ہے کہ انھیں براہ راست نشانہ بنایا گیا۔انھوں نے کہا کہ بین الاقوامی انسانی ہمدردی کے قانون کی رو سے شہری آبادی کی دانستہ ہلاکت جنگی جرم کے زمرے میں شمار ہوتی ہے۔بقول ترجمان، ”ہم یہ نہیں کہتے کہ کوئی خاص ثبوت جنگی جرم ثابت کرتا ہے۔ ابھی ہم اس بات کا فیصلہ نہیں کررہے۔ یہی وجہ ہے کہ مثال کے طور پر ابھی تفصیلی فورینسک تجزیہ کیا جانا باقی ہے۔ اسی وجہ سے یہ بات لازم ہے کہ حقائق کا تفصیلی جائزہ لیا جائے اور اطلاعات جمع کی جائیں کہ کس کے ساتھ کیا ہوا؟یہ کام کس نے کیا اور کس تاریخ کی بات کی جارہی ہے۔ اب ہم اس نوعیت کا کام کررہے ہیں، جیسا کہ دیگر ادارے بھی کررہے ہیں”۔بین الاقوامی فوجداری عدالت نے یوکرین میں روسی فوج کی جانب سے سرزد ہونے والے مبینہ جنگی جرائم کی چھان بین کا آغاز کر دیا ہے۔ عدالت کے چیف پراسیکیوٹر نے کہا ہے کہ یہ خیال کرنے کی وزنی بنیاد موجود ہے کہ تنازع کے دوران جنگی جرائم سرزد ہوئے۔ انھوں نے کہا کہ ممکنہ جنگی جرائم ، انسانیت کے خلاف جرائم اور قتل عام سے متعلق ثبوت اکٹھے کیے جارہے ہیں۔تھروسل نے کہا کہ ضروری ہے کہ یہ کام جاری رکھا جائے اور جنگی جرائم میں ملوث ہونیو الوں کا احتساب کیا جائے اور انھیں انصاف کے کٹہرے میں لا یاجائے۔ان کے الفاظ میں ”گولہ باری، بم باری اور شہریوں پر حملوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے، ہم جنگی جرائم کی بات کررہے ہیں۔ اب اس کی چھان بین کی ضرورت ہے۔آپ یہ دلیل دے سکتے ہیں کہ یہ فوجی کارروائی تھی، مثلاً کسی عمارت کو نشانہ بنایا جانا۔لیکن اس بات کی کوئی وجہہ سمجھ میں نہیں آتی کہ کسی فرد کو سڑک پر پکڑ کر اس کے سر میں گولی ماردی جائے یا کسی کی لاش کو آگ لگا دی جائے”۔ا س الزم کو کہ اس کی فوج مبینہ جنگی جرائم میں ملوث ہے، روس اسے پروپیگنڈا قرار دیتے ہوئے مسترد کرتا ہے۔ روس یوکرینی خصوصی افواج پر الزام لگاتا ہے کہ اسی نیبوچا کے جھوٹے مناظر کی عکس بندی کی ہے، تاکہ کریملن کی ساکھ کو نقصان پہنچایا جاسکے۔ایک اور خبر کے مطابق، امریکہ کے اعلیٰ ترین فوجی جنرل نے خبردار کیا ہے کہ یوکرین میں جنگ برسوں تک جاری رہ سکتی ہے۔چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل مارک ملی کہتے ہیں کہ اس صورت حال میں خدشات بڑھ رہے ہیں کہ دنیا زیادہ غیر مستحکم ہوتی جا رہی ہے اور بڑی طاقتوں کے درمیان اہم بین الاقوامی تنازعے کا امکان کم ہونے بجائیبڑھ رہا ہے۔ایوان نمائندگان کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے رو برو ایک سماعت کے دوران مارک ملی نے یوکرین پر روس کے حملے کو یورپ اور دنیا کے امن و سلامتی کے لیے 42 سالہ کریئر میں سب سے بڑا خطرہ قرار دیا۔امریکہ کو درپیش عسکری خطرات کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ امریکہ ایک بہت ہی نازک اور تاریخی جغرافیائی موڑ پر ہ کھڑا ہے۔ چین یا روس کی نسبت طاقت کی غیر واضح صلاحیت کے ساتھ امن کو برقرار رکھتے ہوئے ایک واضح حکمت عملی پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔