یوکرین اور روس کے مذاکرات کا نتیجہ خیز ہونا ضروری ہے: اردوغان
انقرہ،مارچ۔روس کے یوکرین پر حملے کے تناظر میں بات چیت کے لیے دونوں ممالک کے وفود کے درمیان استنبول میں مذاکرات کا آغاز ہو گیا ہے اور ترک صدر رجب طیب اردوغان نے کہا ہے کہ ان مذاکرات کا نتیجہ خیز ہونا ضروری ہے۔یہ بات چیت منگل کو آبنائے باسفورس کے کنارے تاریخی ڈولماباشے محل میں ہو رہی ہے۔ان مذاکرات کے آغاز سے قبل اپنے استقبالیہ خطاب میں ترک صدر نے کہا ہے کہ یوکرین کے صدر زیلنسکی اور روسی صدر پوتن ان کے ’اچھے دوست‘ ہیں اور یہ بات چیت آگے بڑھی تو اس سے دونوں ممالک کے صدور کی ملاقات کی راہ بھی ہموار ہو سکتی ہے۔صدر اردوغان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ترکی اس سربراہی ملاقات کی میزبانی کے لیے بھی تیار ہے۔ترک صدر نے کہا وہ سمجھتے ہیں کہ یوکرین اور روس دونوں کے ’خدشات جائز ہیں لیکن ہم اس مقام پر پہنچے چکے ہیں جہاں مذاکرات کے نتیجے میں ٹھوس نتائج کا حصول ضروری ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ ان مذاکرات پر بہت سی چیزوں کا انحصار ہے اور ’منصفانہ امن‘ میں کوئی بھی فریق شکست خوردہ نہیں ہوتا اور اگر تنازعے کا جاری رہنا کسی کے بھی مفاد میں نہیں۔رجب طیب اردوغان نے فوری جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اس المیے کو روکنے کا فیصلہ دونوں ممالک کو کرنا ہو گا۔یوکرین کا کہنا ہے کہ جنگ بندی پر اتفاقِ رائے اس کی پہلی ترجیح ہے لیکن یوکرین اور امریکہ دونوں نے اس معاملے میں روس کی نیت پر شبہات ظاہر کیے ہیں۔پیر کی شب یوکرینی صدر زیلنسکی نے عالمی طاقتوں سے ایک مرتبہ پھر اپیل کی کہ وہ روس پر عائد پابندیاں مزید سخت کریں۔خیال رہے کہ پیر کو ہی یوکرینی صدر نے یہ بھی کہا تھا کہ ان کا ملک روس کے ساتھ امن معاہدے پر بات چیت میں اپنی غیرجانبدار حیثیت کے اعلان پر بھی بات کرنے کو تیار ہے۔اس غیرجانبداری کا مطلب یہ ہے کہ یوکرین عسکری طور پر کسی بھی ملک یا تنظیم سے اتحاد نہیں کرے گا۔روسی صحافیوں سے بات کرتے ہوئے صدر زیلنسکی نے کہا تھا کہ اس قسم کا کوئی بھی معاہدہ یوکرین میں ریفرنڈم کے انعقاد اور اس کے نتائج پر منحصر ہو گا۔ان کا کہنا تھا کہ ’تحفظ کی ضمانتیں، غیرجانبدار رہنا اور ہمارے ملک کی غیر جوہری سیٹیس۔ ہم اس کے لیے تیار ہیں۔ یہ سب سے اہم نکتہ ہے۔‘ادھر امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ وہ اپنا وہ متنازع بیان واپس نہیں لیں گے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ولادیمیر پوتن کو برسراقتدار نہیں رہنا چاہیے تاہم انھوں نے کہا کہ وہ یہ مطالبہ کرتے ہوئے اپنی اخلاقی برہمی کا اظہار کر رہے تھے اور اس کا تعلق پالیسی میں تبدیلی سے نہیں ہے۔