روس، یوکرین تنازع: کیا سویت یونین کا ’زوال‘ صدر پوتن کے ’جارحانہ عزائم‘ کی وجہ بنا؟

ماسکو،مارچ۔سٹیو روزنبرگ تقریباً 30 برس تک ماسکو میں بی بی سی کے نامہ نگار رہے ہیں اور ان برسوں میں انھوں نے دیکھا کہ کیسے صدر پوتن کا موجودہ روس ماضی کے سوویت یونین کو یاد کرتا ہے۔ سنہ 2020 میں سٹیو روزنبرگ نے اس حوالے سے ایک دستاویزی فلم بھی بنائی تھی۔ روس کے یوکرین پر حالیہ حملے کے پیش نظر ہم اس ڈاکیومینٹری کی چیدہ چیدہ تفصیلات یہاں بیان کر رہے ہیں۔بحر اوقیانوس سے مغربی یورپ تک پھیلی سویت سلطنت ناقابل تسخیر نظر آتی تھی، لیکن سنہ 1989 میں منظرنامہ بدل گیا اور ماسکو کا شیرازہ بکھرنے لگا۔تھنک ٹینک ’چاتھم ہاؤس‘ کی ایک ماہر لیلیا شیتسووا کہتی ہیں کہ ’آج کا روس اپنے ماضی کے اس برس (1989) کو بھول جانا چاہتا ہے۔‘لیکن 30 برس بعد روس آج اپنا اثر و رسوخ جتا رہا ہے اور اپنی سرحد سے باہر فوجی طاقت کا مظاہرہ کر رہا ہے۔روس کی تاریخ جاننے کے لیے اس کے دارالحکومت ماسکو پر نظر ڈالنا ہی کافی ہو گا۔یہ خوبصورت شہر، جہاں سٹالن کے آسمان سے باتیں کرتے مجسمے اور کریملن کی شان و شوکت یہ پیغام دیتے ہیں کہ یہ جوش و جذبے سے بھرپور ایک ملک ہے۔عقاب، سنہری محراب اور بلند و بالا عمارتیں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ یہ قوم صدیوں سے اپنی قومی عظمت پر یقین رکھتی آ رہی ہے۔19ویں صدی تک روسی سلطنت دنیا کے کرہ ارض کے چھٹے حصے پر مشتمل تھی۔ ابھی بھی بہت سے روسیوں کا ماننا ہے کہ ماسکو حکومت روم اور قسطنطنیہ کی عظیم سلطنتوں کی فطری جانشین ہے۔لیلیا شیتسووا کہتی ہیں کہ ’روسی نہیں جانتے تھے کہ ایک عام ملک میں کیسے رہنا ہے۔ روس، ایک سلطنت کے طور پر قائم ہوا تھا۔ وہ یقین رکھتے تھے کہ وہ بڑے ہیں، اْن کا اثرورسوخ ہونا چاہیے اور یہ کہ اْن کے اور باقی دنیا کے درمیان واضح فرق ہونا چاہیے۔‘یہ کمیونسٹ روس ہی تھا جس نے جب دوسری عالمی جنگ کے دوران نازی فوجیوں کو پیچھے دھکیلا تو مرکزی اور مشرقی یورپ کے درمیان بہت سا علاقہ ماسکو کے کنٹرول میں آ گیا۔کاغذوں میں تمام ملک خود مختار تھے لیکن عملی طور پر تمام اہم فیصلے کریملن ہی کرتا تھا۔ اس نے نہ صرف ماسکو کو تحفظ کا احساس دیا بلکہ سنہ 1989 تک اسے سپر پاور بھی بنا دیا۔یہ وہی سال تھا کہ جب دنیا کی مشہور طاقت کا منظرنامہ بدلنے لگا اور ایک کے بعد ایک کمیونسٹ حکومتیں گرنے لگیں۔سٹیو روزنبرگ کہتے ہیں کہ ’میں سنہ 1989 میں ماسکو میں ایک طالب علم تھا اور مجھے یاد ہے کہ میں ہر رات ٹی وی پر خبریں دیکھتا تھا کہ سویت سلطنت گر رہی ہے۔‘دہائیاں گزرنے کے باوجود بھی روس وہ ملک ہے جو ابھی بھی اپنی سلطنت کے کھونے پر دْکھی ہے۔روزنبرگ کہتے ہیں کہ ’لوگ مجھ سے اکثر پوچھتے ہیں کہ آج کا جدید روس ایسا کیوں کرتا ہے؟ یہ کیوں دوسرے ممالک کے انتخابات میں دخل اندازی کرتا ہے یا مغرب کے خلاف سائبر حملے کرتا ہے؟ ایسا کیوں لگتا ہے کہ ماسکو جغرافیائی سیاسی تخریب کار کا کردار ادا کرتا ہے؟‘روزنبرگ کہتے ہیں کہ ’میرے خیال میں ولادیمیر پوتن کے روس کو سمجھنے کے لیے سنہ 1989 کو سمجھنا ضروری ہے۔ آج روس کو سمجھنے کے لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ 30 برس پہلے ماسکو نے کیا کھویا تھا۔‘دوسری عالمی جنگ میں سویت یونین نے اپنے دو کروڑ 70 لاکھ شہری کھوئے اور ماسکو حکومت نے یہ محسوس کیا کہ یہ سب اسے جواز دیتا ہے کہ روس ایسے دوسرے ممالک کو بھی فتح کرے جہاں جنگ ہے۔اور اسی طرح انھوں نے برلن کے کچھ حصے پر قبضہ کیا، درحقیقت سویت آرمی کا ’یو ایس ایس آر‘ سے باہر سب سے بڑا اڈہ بھی یہاں قائم تھا۔روسی فوجی اسے ’چھوٹا ماسکو‘ کہتے تھے جبکہ مشرقی جرمنی کے لوگ اسے ’شہر ممنوع‘ کہہ کر پکارتے تھے۔سویت فوج کی مشرقی جرمنی میں موجودگی حیران کن سطح پر تھی: وہاں 800 گیریڑن اور سویت یونین کے پانچ لاکھ فوجی موجود تھے۔ماسکو کے لیے یورپ میں یہ اس کا اہم ترین مقام تھا اور مشرقی جرمنی کے فوجی اس کی میزبانی پر خوش تھے۔مشرقی جرمنی کے آخری رہنما ایگون کرینز کہتے ہیں کہ ’اس سے بالاتر کہ وہ ہم پر قبضہ کر رہے تھے یا نہیں، سویت فوجی ہمیشہ میرے لیے دوست تھے۔‘وہ مزید کہتے ہیں کہ ’مجھے سویت لوگوں سے پیار تھا، مجھے سویت یونین سے پیار تھا۔ مشرقی جرمنی کو قائم کرنے میں سویت یونین نے مدد کی اور انھوں نے ہی اسے تباہ کرنے میں بھی مدد کی۔‘لیکن دیوار برلن کے انہدام نے سب کچھ بدل کر دیا اور روسی افواج یورپ میں اپنے سٹریٹجک اڈے سے باہر نکل آئیں۔برلن میں آخری سویت کمانڈر انٹون ٹیرنتیو کہتے ہیں کہ ’ہم ایک تاریخی ناانصافی کے احساس کے ساتھ وہاں سے نکلے۔‘انھوں نے مزید کہا ’ہم اور ہمارے مغربی اتحادی جرمنی میں ایک ہی وقت پر داخل ہوئے لیکن وہاں سے صرف ہم نکلے۔ وہ ملک جس نے فاشزم کے زوال میں سب سے اہم کردار ادا کیا، جرمنی سے نکل آیا لیکن باقی ملک وہاں رہے۔‘سابق کمانڈر کے مطابق جب سوویت جرمنی سے نکلے تو مغربی ممالک کے رہنما جذبات میں رو دیے اور انھوں نے وعدہ کیا کہ نیٹو کا مشرق کی جانب دائرہ کار نہیں بڑھے گا اور وہاں امن رہے گا لیکن آج نیٹو ہمارے دروازے پر کھڑا ہے۔‘سرد جنگ کے خاتمے کے نتائج صرف سویت فوجیوں کے لیے نہیں بلکہ یو ایس ایس آر کے جاسوسوں کے لیے بھی تھے۔جرمنی کے شہر ڈریسڈن کے آرکائیو میں آج بھی کئی جاسوسوں کی فائلیں پڑی ہیں۔ڈریسڈن آرکائیو کی سربراہ کورنیلا ہیرولڈ کہتی ہیں کہ ’آرکائیو میں مشرقی جرمنی کی خفیہ پولیس کا ریکارڈ اب بھی محفوظ ہے اور روس کی خفیہ ایجنسی ’کے جی بی‘ کے جن اہلکاروں، جیسا کہ ولادیمیر پوتن‘ نے یہاں کام کیا ان کی دستاویزات بھی موجود ہیں۔‘یہ ہی وہ جگہ ہے جہاں سے روسی رہنما کے مستقبل نے شکل اختیار کی۔دسمبر 1989 میں ایک ہجوم نے ڈریسڈن میں ’کے جی بی‘ ہیڈکوارٹرز پر حملہ کیا۔ اس وقت پوتن بھی وہاں موجود تھے۔روس کے موجودہ صدر کا دعویٰ ہے کہ اس وقت انھوں نے جرمنی میں سویت کمانڈر کو فون کیا اور مزید فوجی بھیجنے کی درخواست کی لیکن اس وقت کریملن خاموش تھا۔روزنبرگ کہتے ہیں ’یہ وہ وقت تھا جب ولادیمیر پوتن کو احساس ہوا کہ ان کی سرزمین نے انھیں تنہا چھوڑ دیا۔‘مشرقی جرمنی کے آخری رہنما ایگون کرینز کہتے ہیں کہ ’یو ایس ایس آر نے بھی پوتن کو تنہا چھوڑ دیا تھا۔‘ایگون کرینز یاد کرتے ہیں کہ ’نومبر 1989 میں سوویت رہنما میخائل گورباچوف نے مجھے ایک پیغام بھیجا کہ وہ سرد جنگ کے خاتمے کا اعلان کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور انھوں نے امریکی صدر جارج بش سینیئر کے ساتھ ایک ملاقات میں ایسا کہہ دیا جس پر صدر بش نے انھیں جواب دیا: ہاں، سرد جنگ ختم ہو چکی ہے اور ہم اسے جیت چکے ہیں۔‘اسی لیے روسیوں کے لیے میخائل گورباچوف کا بیان ذلت آمیز تھا۔ ایگون کرینز کہتے ہیں کہ ’سرد جنگ کا خاتمہ روسیوں کے لیے شکست میں بدل گیا۔‘ماسکو کو اپنے تمام فوجی واپس لانے میں چار برس لگے لیکن یہ وہ ملک نہیں رہا تھا جسے یہ فوجی چھوڑ کر گئے تھے۔سویت یونین بکھر چکا تھا، روس بحران کا شکار تھا اور واپس آنے والے فوجی حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں تھے۔ایک سابق سوویت فوجی ویاشیسلاف بسلائیف کہتے ہیں کہ انھوں نے چار برس تک ایک ایلیٹ ٹینک یونٹ میں اپنی خدمات سرانجام دیں لیکن روس واپسی پر انھیں کچھ نہیں ملا۔وہ یاد کرتے ہیں کہ ’کوئی فوجی تنصیبات نہیں تھیں، گھر نہیں تھے اور ہمارے خاندانوں کے رہنے کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی۔‘ان کا ماننا ہے کہ سنہ 1989 کے بعد ان کے ملک کے ساتھ جو ہوا، جیسے سویت یونین جسی سپر پاور اچانک ماضی کا حصہ بن گئی تو اس کے نتیجے میں روسیوں کو ذلت اور کھونے کا احساس ہوا۔روزنبرگ کہتے ہیں کہ ’شاید اگر سرد جنگ کے اختتام پر لوگوں کے لیے خوشحالی آئی ہوتی تو سلطنت کو کھونے کا یہ احساس شاید تھوڑا آسانی سے ہضم ہو جاتا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ نوے کی دہائی ملک میں معاشی افراتفری اور غربت لے کر آئی۔‘وہ کہتے ہیں کہ ’تو ان کے پاس روس کو دوبارہ سے عظیم بنانے کے وعدے پر یقین کے سوا کچھ نہیں تھا اور یہی سے ولادیمیر پوتن منظرنامے میں شامل ہوئے۔‘روزنبرگ کے مطابق پوتن روس کی ہونے والی تذلیل اور ماضی میں اس کی طاقت کی یاد دہانی کو اپنے سیاسی عزائم کے لیے استعمال کرتے ہیں۔پوتن کی حکومت کے لیے سنہ 1945 کی جیت آج کا حصہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ ماضی کو دوبارہ بحال کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔لیکن ایسا دکھائی دیتا ہے کہ پوتن کا روس 30 برس پہلے کے یو ایس ایس آر کو بحال نہیں کرنا چاہتا اور ماہرین کے مطابق پوتن کے طریقے بھی مختلف ہیں۔لیلیا شیتسووا کہتی ہیں کہ ’کریملن میں موجود لوگوں کو اندازہ ہے کہ سوویت سلطنت کی بحالی ناممکن ہے لیکن ان کے پاس ایک اور آئیڈیا ہے: وہ اثرورسوخ حاصل کرنا چاہتے ہیں، دنیا میں افراتفری پھیلانا چاہتے ہیں، ہمسایہ ممالک اور اپنے مخالفین کے لیے ایک ڈراؤنا خواب بننا چاہتے ہیں۔ یہ سپر پاور بننے کے لیے ان کا نیا آئیڈیا ہے۔‘یہ وہ چیز ہے جس کا مظاہرہ روس نے اپنی سرحدوں کے قریب کیا بھی ہے۔ کریمیا کو خود میں ضم کرنے کے بعد روس نے وہاں اپنی طاقت کو بڑھایا اور بحیرہ اسود میں اپنی موجودگی کو بھی بڑھایا۔نیٹو سربراہ سٹولنبرگ کہتے ہیں کہ ’وہ اس حکمت عملی کو بحیرہ روم، بلقان اور مشرق وسطیٰ میں اپنی طاقت بڑھانے کے لیے بھی استعمال کر رہے ہیں۔‘سٹولنبرگ مزید کہتے ہیں کہ ’سرد جنگ کے اختتام پر روس کی نیٹو اتحاد کے ساتھ شراکت داری ممکن نظر آ رہی تھی۔ ایسا بھی لگا تھا کہ شاید ایک دن روس بھی اس اتحاد کو حصہ ہو گا تاہم اب یہ خیال ناممکن دکھائی دیتا ہے۔‘سٹولنبرگ کے مطابق ’ہم جو دیکھ رہے ہیں کہ روس کے اپنے ہمسایوں کے ساتھ رویے میں جارحیت ہے، جو اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ روس کا سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ وہ ابھی بھی اثرورسوخ کے دائرہ کار پر یقین رکھتا ہے۔‘نیٹو میں شامل 30 ممالک میں سے نو ملک ماسکو کے اثرورسوخ میں رہے ہیں۔نیٹو اتحاد کے سیکریٹری کے مطابق ’یہ طاقت کے توازن میں تبدیلی ہے، جو روس کو تنگ کرتی ہے۔‘نیٹو مبینہ طور پر وعدہ کرتا ہے کہ یہ اتحاد روس کی سرحدوں تک اپنے دائرے کو وسیع نہیں کرے گا لیکن کریملن کا ماننا ہے کہ مغرب ماسکو کو گمراہ کرتا ہے۔روزنبرگ یہ بات دہراتے ہوئے کہ یہ نیٹو کی پالیسی رہی ہے کہ اس کے ’دروازے ہمیشہ ان ملکوں کے لیے کھلے رہیں گے‘ جو اس میں شامل ہونا چاہتے ہیں، کہتے ہیں کہ ’ایسا وعدہ کبھی کیا ہی نہیں گیا۔‘کچھ برس قبل اپنی دستاویزی فلم بناتے وقت جب روزنبرگ نے پوتن سے پوچھا کہ کیا وہ اپنے ملک کو سپر پاور کے طور پر دیکھتے ہیں؟روسی صدر نے کہا ’ہم اس رتبے کی تلاش میں نہیں۔ ہم واپس اس طرف نہیں جانا چاہتے، جب سویت یونین نے مشرقی یورپ میں اپنے پڑوسیوں پر اپنا طرز زندگی اور سیاسی نظام مسلط کیا۔‘تاہم یہ واضح نہیں کہ تین برس بعد اب روس کے یوکرین پر حملے کے بعد اس سوال پر روس کا ردعمل اب کیا ہو گا۔

 

Related Articles