ترکی: صدر کی توہین کا قانون کیا ناقدین کو خاموش کرانے کا ذریعہ بن چکا ہے؟
انقرہ،فروری۔ترکی کے سرکاری اعداد وشمار کے مطابق 2020 میں 31 ہزار لوگوں اور 2019 میں36 ہزار لوگوں پر ترک صدر رجب طیب اردوان کی مبینہ ہتک کے الزامات کے تحت فرد جرم عائد کی گئی جب کہ 2010 میں یہ تعداد صرف4 تھی۔خاتون صحافی صدف کباش کو صدر اردوان کی مبینہ توہین کے الزام میں گرفتار ہوئے دوسرا مہینہ شروع ہوگیا ہے۔غیر سرکاری تنظیم رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز کے مطابق 52 سالہ صحافی پہلے بھی اسی طرح کے الزامات میں طویل قید کاٹ چکی ہیں۔گرفتار صحافی کباش نے 14 جنوری کو اپنے ایک ٹیلی ویڑن انٹرویو میں ایک پرانے محاورے کا حوالہ دیا تھا کہ ” تاج پہننے والا سر عموماً سمجھدار ہوتا ہے”۔ لیکن انھوں نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ یہ سچ نہیں ہے”۔انھوں نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر بھی، جس کے نو لاکھ سے زیادہ فالورز ہیں ، صد رطیب ایردوان اور ان کی حکومت کے لیے یہی الفاظ دہرائے تھے۔تین ہفتے بعد کباش پرباقاعدہ فرد جرم عائد کی گئی۔ ان کی ضمانت کی درخواست مسترد کردی گئی اور صدرطیب ایردوان نے مبینہ "ہتک عزت” پر ان کے خلاف اڑھائی لاکھ لیرا ہرجانے کا دعویٰ بھی دائر کردیا۔اس مقدمے کی سماعت 11 مارچ کو ہو گی اور یہ خدشات موجود ہیں کہ انھیں صدر اور ان کے دو وزرا کی ہتک کے الزام میں مجموعی طور پر 12 سال 10 ماہ قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ضمانت منسوخی کی درخواست پر عدالت کا موقف ہے کہ انھیں پہلے بھی عدالتی تنبیہہ جاری کی جاچکی تھی لیکن وہ باز نہیں آئیں اور صدارت کے منصب کے لیے انتہائی توہین آمیز الفاظ استعمال کرتی رہی ہیں۔ترکی میں سرکاری ملازمین کی ہتک کا قانون بہت پرانا ہے۔لیکن صدر کی ہتک عزت کو 2005میں ایردوان کی ایکے پی پارٹی نے قانونی طور پر جرم قرار دیاتھا۔ آزادی اظہار پر نظر رکھنے والے اداروں کے مطابق دو ہزار چودہ میں ایردوان کے منصب صدارت سنبھالنے کے بعد سے اس قانون کے استعمال میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔سرکاری اعداد وشمار کے مطابق 2020 میں 31 ہزار لوگوں اور 2019 میں36 ہزار لوگوں پر صدر کی مبینہ ہتک کے الزامات کے تحت فرد جرم عائد کی گئی جب کہ 2010 میں یہ تعداد صرف4 تھی۔پیرس ملٹری اسکول کے انسٹی ٹیوٹ فار اسٹرٹیجک ریسرچ کے محقق سمبل کایا کے مطابق 2016 میں فوجی بغاوت کے بعد سے دہشت گردی کے الزام سے کہیں زیادہ صدر کی توہین کے الزامات پرکارروائیاں کی گئی ہیں۔ترکی میں آر ایس ایف کے نمائندے ایرول اوندرولو کا کہنا ہے کہ "یہ غیر جمہوری قانون جبر کا ایک آلہ بن گیا ہے جو حکومت کی آمرانہ پالیسی کی عکاسی کرتا ہے۔آر ایس ایف کے عالمی پریس فریڈم انڈکس میں ترکی کا 153 واں نمبر ہے۔نومبرمیں انسانی حقوق کی یورپی عدالت نے کہا تھا کہ ایک اور ترک صحافی کو صدر کی مبینہ توہین کے الزام پر قید کیا جانا آزادی اظہار رائے کے حق کی خلاف ورزی ہے۔صدر ایردوان نیکہا ہیکہ صدف کباش کے خلاف کارروائی کا اظہار رائے کی آزادی سے کوئی تعلق نہیں۔ تاہم، ان کے بقول صدارتی منصب کی توہین کے مقدمیمیں صدف کو سزا ضرور ملے گی۔ انھیں صدر کے دفتر کا احترام کرنا ہی پڑے گا۔
ترکی: کیا نوجوان صدر ایردوان کی حکومت سے خوش نہیں؟:کباش کیس پر ایردوان کے تبصرے کے بعد مزید آٹھ لوگوں کے خلاف اسی طرح کے الزامات کے تحت وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے ، جن میں ایک اولمپک تیراک ڈیریا بیوکونکو ک بھی شامل ہیں۔ انہوں نے ٹوئٹر پراپنے پیغام میں صدر کی کووڈ۔19 سے متعلق پالیسی کامذاق اڑیا تھا۔صحافی کباش نے پولیس کو دیے گئے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ان کی نیت صدر کی توہین نہیں تھی۔صحافیوں کا دفاع کرنے والی 30 سے زائدبین الااقوامی تنظیموں نے کباش کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ترک ماہر معاشیات اور سیاسیات احمد انسل کے نزدیک آرٹیکل 299 کیبڑے پیمانے پر استعمال کا مقصد صدر کے خلاف کسی بھی سخت تنقیدی اظہار کو روکنا ہے۔ ان کا الزام ہے کہ” بہت سے صحافیوں اور قانون دانوں کو دہشت گردی کے خلاف پراپیگنڈا کے الزام میں قید کیا گیا، لیکن جب اس الزام کو ثابت نہ کیا جاسکا تو ، ایردوان کے وکلا نے دفعہ 299 کے تحت ان کیخلاف شکایت درج کرا دی”۔انسل کا خیال ہے کہ یہ ایردوان کے صدارتی عہدے کو خودمختار بنانے کے تصور کا نتیجہ ہے۔ 2018 میں صدر ایردوان ریاست اور حکومت دونوں کے سربراہ اور ساتھ ہی حکمراں جماعت کے رہنما بھی بن گئے تھے۔انسل نے کہا کہ 2016 کی ناکام بغاوت کے بعد سے اب تک4 ہزار سے زیادہ ججوں اور پراسیکیوٹرز کو بر طرف کرکے ان کی جگہ صدر کی جماعت اے کے پی سے قریبی تعلق رکھنے والے نوجوان وکلا کو بھرتی کیا گیا ہے اور اس طرح کی بھرتی کے احکامات براہ راست صدارتی محل سے جاری کییجاتے ہیں۔ادھر ترک حکومت کے مطابق نئے صحافتی قوانین مرتب اور نافذ کرکے ایردوان کی حکومت جمہوریت کی بقا اور معاشرے کے اقدار کا تحفظ کرنا چاہتی ہے ۔حکومتی اہل کاروں کے مطابق، صحافی کباش کے معاملے میں بھی بڑی نرمی برتی جا رہی ہے، لیکن وہ باربار کی تنبیہہ کے باوجود منصب صدارت کے لیے مبینہ طور پر توہین آمیز الفاظ استعمال کرتی رہی ہیں، جب کہ ان کے خلاف عدالتی کارروائی میں حکومت کوئی مداخلت نہیں کرسکتی۔