ایران کوعرب امورمیں مداخلت بند کرنے کی ضرورت ہے: اردنی وزیرخارجہ
عمان،جنوری۔اردن کے وزیرخارجہ ایمن الصفدی نے گذشتہ ایک ہفتہ واشنگٹن میں گزارہ ہے جہاں انھوں نے بائیڈن انتظامیہ کے قریباً تمام اعلیٰ عہدے داروں سے ملاقاتیں کی ہیں۔وہ سال کے آغاز میں امریکا کا دورہ کرنے والے پہلے عرب وزیر خارجہ بن گئے ہیں۔اردن کے شاہ عبداللہ دوم بھی گذشتہ سال واشنگٹن کا دورہ کرنے والے پہلے عرب سربراہ تھے اورانھوں نے امریکی صدر جوبائیڈن سے وائٹ ہاؤس میں منصب سنبھالنے کے بعد سب سے پہلے ملاقات کی تھی۔اطلاعات کے مطابق سابق ٹرمپ انتظامیہ کے دور میں واشنگٹن اور عمان کے درمیان تعلقات کشیدہ رہے تھے لیکن گذشتہ 12 ماہ کے دوران میں ان میں نمایاں بہتری آئی ہے۔وزیر خارجہ ایمن الصفدی نے جمعرات کو اپنے امریکی ہم منصب انٹونی بلینکن سے ملاقات کی تھی اور ان سے بات چیت کو’’مفید اوربہترین‘‘قرار دیا۔صفدی نے کانگریس اور پینٹاگان کے مختلف عہدے داروں کے ساتھ بھی ملاقاتیں کی ہیں۔انھوں نے واشنگٹن میں اردن کے سفارت خانے میں العربیہ سے ایک انٹرویو میں کہا کہ امریکا اردن کا نمبر ایک حامی اور مددگار ملک ہے۔اس کی مہیا کردہ امداد ہمیں چیلنجوں کا سامنا کرنے میں مدد دیتی ہے۔ان میں خطے میں ہمارے ارد گرد موجود مختلف بحران اور ان کے نتیجے میں ہمیں درپیش اقتصادی مسائل بھی شامل ہیں۔انھوں نے واشنگٹن سے روانگی قبل کہا کہ ہم اپنے قومی مفادات کی تکمیل کے ساتھ ساتھ علاقائی مسائل کے حل کے لیے کام کررہے ہیں جن پر ہمیں اجتماعی طور پر کام کرنے کی ضرورت ہے اور مسئلہ فلسطین ان مسائل میں سرفہرست ہے۔ایمن الصفدی نے امریکی وزیرخارجہ سے مشرق اوسط میں مختلف بحرانوں کا پرامن حل تلاش کرنے کے طریقوں پر تبادلہ خیال کیا اورایک نئے دو طرفہ معاہدے پر بات چیت کی ہے۔دونوں ملکوں میں موجودہ معاہدہ رواں سال کے آخر میں ختم ہونے والا ہے۔اس کے تحت امریکا نے صرف گذشتہ سال اردن کی قریباً 1.2 ارب ڈالر کی امداد کی تھی۔انھوں نے مزید بتایا کہ ان کے درمیان بات چیت اچھی رہی ہے۔دونوں ممالک کی جانب سے دوطرفہ تعلقات کو تقویت دینے کے ساتھ ساتھ علاقائی مسائل کے حل اوردوطرفہ تعاون بڑھانے میں باہمی دلچسپی کا اظہار کیا گیاہے۔
ایران کی عرب امور میں مداخلت:مشرق اوسط میں شیعہ ہلال کی تشکیل کے بارے میں اردن کے شاہ عبداللہ کے سابقہ تبصروں کے بارے میں پوچھے گئے سوال پرصفدی نے کہا: شاہِ اردن خطے میں ایران کے کرداراور عرب مفادات کو نقصان پہنچانے والی کسی بھی پالیسی کے بارے میں فرقہ وارانہ یا مذہبی انداز میں نہیں بلکہ سیاسی نقطہ نظرسے بات کررہے تھے‘‘۔ان کا کہنا تھا کہ تمام عرب شراکت دار ایران کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں۔تاہم ہمیں خوشگوار تعلقات استوار کرنے کے لیے ہمیں عرب اور ایرانی تعلقات کی وجوہ پربات کرنی چاہیے۔اس کی ایک وجہ عرب خطے میں ایران کی مداخلت بھی ہے اور عرب ایران بہتر تعلقات استوارکرنے کے لیے یہ مداخلت بند ہونی چاہیے۔
مسئلہ فلسطین:اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پرلانے والے پہلے دو عرب ممالک میں سے ایک ہونے کے ناتے اردن سے وائٹ ہاؤس نے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فلسطین اور اسرائیل کے درمیان گذشتہ سال کے دوران میں پیداہونے والی کشیدگی کو کم کرنے میں مدد دے۔اقوام متحدہ کے فلسطینی پناہ گزینوں کے ذمے دا ادارے انروا کے مطابق اردن میں 20 لاکھ سے زیادہ رجسٹرڈ فلسطینی مہاجرین رہتے ہیں۔فلسطین اوراسرائیل تنازع مختلف امریکی حکام اور قانون سازوں کے ساتھ صفدی کی ملاقاتوں میں زیربحث آنے والے اہم موضوعات میں سے ایک تھا۔امن کوششوں کے بارے میں پوچھے جانے پر صفدی نے کہا کہ تنازع کے دوریاستی حل کا کوئی متبادل نہیں ہے۔اس کا دوسرا آپشن ایک ریاستی حل ہوگا جو قابل عمل نہیں کیونکہ ’’اس سے نسلی امتیاز کوادارہ جاتی شکل دی جائے گی‘‘۔ایمن صفدی نے کہا کہ فلسطینی اسرائیل تنازع کا حل تلاش کرنے کے لیے سفارتی کوششیں بحال ہو رہی ہیں۔انھوں نے امریکا کی جانب سے فلسطین اور انروا کو دوبارہ امداد جاری کرنے کاحوالہ دیا۔انھوں نے اسرائیل کی نئی حکومت کے ساتھ تجدید ابلاغ کا بھی حوالہ دیا جبکہ سابق وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے اس معاملے پر سفارتی کوششوں کے تمام دروازے بند کردیے تھے۔
خلیج کے ساتھ تعلقات:انھوں نے کہا کہ سعودی عرب سمیت اردن اور خلیجی ریاستوں کے درمیان مضبوط باہمی تعلقات استوارہیں اور تمام فریق باہمی تعاون اور ہم آہنگی کو مستحکم کرنے کے لیے کام کررہے ہیں۔وزیر خارجہ نے کہا کہ اردن کے بادشاہ نے بار بارکہا ہے کہ خلیج اور سعودی عرب کی سلامتی اردن کی سلامتی کا حصہ ہے۔ہم اپنے خلیجی بھائیوں کے ہراس اقدام کی تائید کرتے ہیں جو وہ اپنی سلامتی اور استحکام کے تحفظ کے لیے کرتے ہیں۔یمن میں ایران کی حمایت یافتہ حوثی ملیشیا کی تخریبی کارروائیوں کا حوالہ دیتے ہوئے الصفدی نے کہا کہ عمان سعودی عرب پر دہشت گرد حملوں کی مذمت جاری رکھے گا۔انھوں نے کہا کہ ہم اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے سعودی عرب کے ساتھ کھڑے ہیں اور ہم یمن کے تباہ کن بحران کے حل تک پہنچنے کی کوششوں کی حمایت پر قائم ہیں۔ حوثیوں کو ان معاہدوں کی پاسداری کرنی چاہیے جن پر انھوں نے دستخط کیے تھے۔ان میں الریاض معاہدہ اور دیگر شامل ہیں۔صفدی نے مزید کہا:’’ہماری سلامتی ایک ہے، ہمارا استحکام ایک ہے اور ہم اپنے عوام کے بہتر مستقبل کی تعمیر کے لیے مل کر کام کرتے ہیں‘‘۔
شام اور اسد حکومت:اردن ان متعدد عرب ممالک میں شامل ہے جنھوں حالیہ مہینوں میں شام کے صدر بشارالاسد کے ساتھ دوبارہ سلسلہ جنبانی شروع کیا ہے۔شاہ عبداللہ نے گذشتہ سال کوئی ایک دہائی کے بعد پہلی مرتبہ بشارالاسد کے ساتھ ٹیلی فون پر بات چیت کی تھی۔اردنی وزیرخارجہ نے کہا کہ شام میں برسوں سے جاری جنگ کے خاتمے کے لیے حقیقت پسندانہ نقطہ نظراپنانے کی ضرورت ہے۔انھوں نے کہا کہ ہم ایک ایسا حل چاہتے ہیں جو شام کے اتحاد، آزادی اور استحکام کو یقینی بنائے لیکن ہم کسی حل تک کیسے پہنچتے ہیں،اس ضمن میں ہمیں حقیقت پسندہونا چاہیے۔جہاں تک شام کو عرب لیگ میں دوبارہ شامل کرنے کا تعلق ہے، اردن کے اعلیٰ سفارت کار نے کہا کہ یہ صرف ان کا فیصلہ نہیں،یہ عرب لیگ اور تمام عرب ممالک کا فیصلہ ہے۔وزیرخارجہ نے شام میں موجود تمام غیرملکی فوجیوں کے انخلا پرزور دیا اور شامی پناہ گزینوں اور ان کے میزبان ممالک کی حالت زار پر بین الاقوامی توجہ اور امداد میں نمایاں کمی پرافسوس کا اظہارکیا۔انھوں نے کہا کہ اردن امریکااور دیگر شراکت داروں کے ساتھ مل کرشام میں جنگ کے خاتمے کے نئے طریقوں کی تلاش میں کام کررہا ہے۔