امریکی قیادت میں اتحادی فورسز کی شام میں نئے حملوں پر جوابی کارروائی
دمشق،جنوری۔امریکی اور اتحادی فورسز نے شام اور عراق میں، ایران سے وابستہ عسکریت پسندوں کے راکٹوں اور ڈرونز کے ذریعے کیے گئے لگاتار حملوں کے جواب میں کارروائی کی ہے۔بدھ کے روز امریکی قیادت والے اتحاد نے الزام عائد کیا تھا کہ ایرانی حمایت والی ملیشیا نے شام کے شمال میں، سرین ڈیموکریٹک فورسز (ایس ڈی ایف) کے گرین ولیج نامی فوجی اڈے کو، جہاں اتحادی فوجی موجود ہیں، اس کے الفاظ میں،”بالواسطہ فائرنگ” کے آٹھ راؤنڈز سے نشانہ بنایا۔اتحاد کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اس کی فورسز نے فوری جوابی کارروائی کر کے، مدین شہر کے قریب اس مقام پر گولہ باری کی جہاں سے حملہ کیا گیا تھا۔علاقے سے ملنے والی دیگر خبروں اور سوشل میڈیا پوسٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی اور اتحادی فورسز نے ملیشیا کے ارکان اور ایسے دیگر مقامات پر بھی فضائی حملے کئے جہاں سے حملوں کا امکان تھا۔امریکی عہدیداروں نے کارروائی جاری رہنے کے امکان پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ تاہم یہ کہا کہ امریکہ اور اتحاد، ایران سے منسلک گروپوں کی جانب سے حملوں میں اضافے کی صورت میں جوابی کارروائی کے لیے تیار ہیں۔امریکی میجر جنرل جان برینن، "آپریشن انہیرینٹ ریزالو” کی مشترکہ ٹاسک فورس کے کمانڈر ہیں۔ انہوں نے ایک بیان میں کہا ہے،” ہمارا اتحاد عراق اور شام میں ان میلشیا گروپوں سے مسلسل خطرہ محسوس کرتا ہے جنہیں ایران کی حمایت حاصل ہے۔”انہوں نے مزید کہا کہ،”اتحاد کسی خطرے کی صورت میں، اپنے اور ساتھی فورسزکے دفاع کا حق محفوظ رکھتا ہے اور ان فورسز کے دفاع کے لئے ہر وہ اقدام کرتا رہے گا جو اس کے اختیار میں ہے۔”بدھ کو ایرانی حمایت والی مشتبہ ملیشیا کے خلاف جوابی حملوں سے ایک روز پہلے علاقے میں اتحادی فورسز نے یہ آثار دیکھ کر کہ ایس ڈی ایف کے اڈے پر حملے کی تیاری کی جارہی ہے، آگے بڑھ کر حملہ کر دیا تھا۔بدھ کے روز ایک الگ رپورٹ میں عراق کے فوجی عہدیداروں نے عراق کے صوبے العنبر میں دو دنوں میں دوسری مرتبہ عین الاسد ائیربیس پر حملے کی اطلاع دی۔عہدیداروں نے بتایا کہ حملہ آوروں نے اس فضائی اڈے پر جہاں امریکی فوجی موجود ہیں، پانچ راکٹ داغے۔ تاہم پانچوں راکٹ اس ائیر بیس کی حدود سے دور گرے۔عراق میں قائم شیعہ ملیشیا، قاسم الجبرین نے بدھ کو دیر گئے اس حملے کی ذمے داری کا دعویٰ کیا اور انتہا پسند میڈیا کے نگراں، ایس آئی ٹی ای نامی ایک انٹیلیجنس گروپ کے ترجمان کے مطابق، کہا کہ راکٹ ٹھیک نشانے پر لگے۔ملیشیا نے دھمکی بھی دی کہ جب تک امریکہ شکست کھاکر عراقی سرزمین سے نہیں نکلتا یہ حملے جاری رہیں گے۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ بریگیڈ ایرانی حمایت یافتہ کتائب حزب اللہ ملیشیا کا ایک محاذ خیال کیا جاتا ہے۔ایک روز پہلے امریکی اتحاد نے الاسد پہنچنے سے پہلے ہی دو ایسے ڈرونز مار گرانے کی تصدیق کی تھی جن پر دھماکہ خیز مواد لدا ہوا تھا۔دو خودکش ڈرونز پیر کے روز مار گرائے گئے تھے جو ایرانی قدس فورس کے سربراہ قاسم سلیمانی کی دوسری برسی کا دن تھا جنہیں بغداد انٹرنیشنل ائیرپورٹ کے قریب، جو بین الاقوامی اتحاد کے استعمال میں بھی ہے، امریکی ڈرون حملے میں ہلاک کر دیا گیا تھا۔امریکی محکمہ دفاع کے لیے وائس آف امریکہ کی نامہ نگار کارلا بیب نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ بدھ کے روز ایک پریس بریفنگ کے دوران پریس سیکریٹری جان کربی نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ مشتبہ طور پر ایران کے ساتھ کام کرنے والی ملیشیا کا یہ حملہ غیر متوقع نہیں تھا۔کربی نے کہا،”لبِ لباب یہ کہ ہم دسمبر کے آخر میں حملوں میں اضافے کے امکان کے پیشِ نظر تیاری کر تے رہے ہیں۔”انہوں نے باور کروایا کہ حملوں میں اضافے کی وجہ قاسم سلیمانی کے خلاف امریکی حملے کی برسی ہو سکتی ہے یا سال کے آخر میں، عراق میں امریکی مشن کی جنگی نوعیت سے مشاورتی اور معاون مشن کی جانب باضابطہ منتقلی۔کربی نے مزید کہا، "خطرے کی نوعیت اور گہرائی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ہمارے کمانڈر اس صورتِ حال کا پوری طرح ادراک کر رہے ہیں۔ ان کے حوصلے بلند ہیں اور ہم انہیں اپنے ہی حربے، تیکنیک اور طریقے، مناسبت کے لحاظ سے تبدیل کرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔”امریکی محکمہ دفاع کے مطابق، عراق میں امریکہ کے 2500 فوجی ہیں جبکہ شام میں ان فوجیوں کی تعداد ایک ہزار سے کم ہے۔پیر کے روز تہران میں بات کرتے ہوئے ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے کہا کہ اگر سابق صدر ڈونلد ٹرمپ اور امریکہ کے سابق وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو کے خلاف قانونی کارروائی نہ کی گئی تو ایران سلیمانی کی موت کا انتقام لے گا۔