ترکی:صدرایردوآن کے دورمیں افراطِ زرکی سالانہ شرح پہلی مرتبہ 36 فی صد سے متجاوز
انقرہ،جنوری۔ترکی میں گذشتہ ماہ افراط زر کی سالانہ شرح 36.1 فی صد تک بڑھ گئی اوریہ گذشتہ 19 سال میں سب سے زیادہ ہے۔صدر رجب طیب ایردوآن کی حکومت نیغیرروایتی شرح سود میں کمی کی ہے، جس نے کرنسی بحران کو جنم دیا ہے۔ترکی کے ادارہ شماریات کے اعداد و شمار کے مطابق صرف دسمبر میں اشیائے صرف کی قیمتوں میں دو ہندسوں میں اضافہ ہوااور افراط زرمیں 13.58 فی صد اضافہ ہوا۔یہ معاشی بدحالی سے پریشان ترکوں کی آمدن اور بچت کو بھی اب چاٹ رہا ہے۔ترکی کے لیرا نے گذشتہ سال اپنی قدر کا 44 فی صد کھودیا تھا کیونکہ مرکزی بنک نے صدر ایردوآن کی جانب سے کرنسی اور قیمتوں کے استحکام پرکریڈٹ اور برآمدات کو ترجیح دینے کی مہم کے تحت شرح سود میں کمی کی تھی۔کچھ ماہرین معاشیات نے پیشین گوئی کی ہے کہ موسم بہار تک افراطِ زر کی شرح 50فی صد تک پہنچ سکتی ہے اور مالیاتی پالیسی واپس لینے تک یہ رجحان جاری رہ سکتا ہے۔ گولڈمین سچز کا کہنا ہے کہ افراط زرآنے والے سال کے بیشترعرصے میں 40فی صد سے زیادہ رہے گا۔ٹریڈنگ اکنامکس لسٹنگ کے مطابق ترکی اب زمبابوے اور ارجنٹائن کے بعد اور ایران اور ایتھوپیا سے آگے دنیا میں آٹھویں نمبر پرسب سے زیادہ افراط زرکاحامل ہے۔گذشتہ سال قریباً دو دہائیوں کے بعد لیرا کے لیے بدترین تھا۔اس سے قبل ستمبر2002 میں سالانہ سی پی آئی 37.0 فی صد رہا تھا۔اس کے دوماہ کے بعد صدر رجب طیب ایردوآن کی آق پارٹی اقتدار میں آئی تھی۔ترک صدر نے ایک تقریر میں کہا کہ ہمیں صرف ایک تشویش ہے کہ ’برآمدات، برآمدات اور برآمدات‘۔ تجارتی اعداد وشمار سے ظاہرہوتا ہے کہ بطور رہ نما ان کے دور میں برآمدات میں چھے گنا اضافہ ہوا ہے۔صدرایردوآن خود کو شرح سود کے خود ساختہ دشمن گردانتے ہیں۔انھوں نے گذشتہ سال مرکزی بنک کے معاملات کو بہتر بنایا تھا اور اس کی قیادت تبدیل کی تھی۔بنک نے ستمبر سے اب تک پالیسی کی شرح 19 فی صد سے کم کرکے 14 فی صد کر دی ہے جس سے ترکی کو گہری منفی حقیقی پیداوار حاصل ہوئی ہے۔اس اقدام نے بچت کرنے والوں اور سرمایہ کاروں کو خوفزدہ کر دیا ہے۔اس کے علاوہ اس اقدام سے قیمتوں میں تیزی سے اضافے اور لیرا میں کمی نے گھریلو اورکمپنیوں کے بجٹ کو بھی متاثر کیا ہے۔بہت سے ترکوں کواخراجات میں کمی کے لیے ہاتھ پاؤں مارنا پڑا ہے۔بہت سے لوگ گذشتہ ماہ استنبول میں زرتلافی والی روٹی کی قطارمیں کھڑے نظرآئے تھے جہاں بلدیہ کا کہنا ہے کہ ایک سال میں زندگی گزارنے کی لاگت 50 فی صد زیادہ ہوگئی ہے۔مرکزی بنک کا کہناہے کہ عارضی عوامل قیمتوں میں اضافے کا موجب بن رہے ہیں اور افراط زر کے ایک غیرمستحکم دورانیے کی پیشین گوئی کررہے ہیں، جو حالیہ مہینوں میں قریباً 20 فی صد اور گذشتہ پانچ سال کے دوران میں زیادہ تر دو ہندسوں کے لگ بھگ رہا ہے۔درآمدی قیمتوں میں اضافے کی عکاسی کرتے ہوئے دسمبر کے پروڈیوسر پرائس انڈیکس میں ماہانہ 19.08 فی صد اور سال بہ سال 79.89 فی صد اضافہ ہوا۔ سی پی آئی کے اعداد و شمارسے پتاچلتا ہے کہ سالانہ نقل وحمل کے اخراجات میں 53.66 فی صد اضافہ ہوا جبکہ کھانے پینے کی اشیاء میں 43.8 فی صد اضافہ ہواتھا۔ترک لیرا نے دوہفتے قبل ریاست کی مارکیٹ میں مداخلت کے بعد تیزی سے اپنی قدر بحال کی تھی۔ اس سے قبل دسمبر میں اس نے ڈالر کے مقابلے میں 18.4 کی ریکارڈ کم ترین سطح کو چھو لیا تھا اورصدر ایردوآن نے کرنسی میں اتار چڑھاؤ کے خلاف لیرا کے ذخائر کو بچانے کی اسکیم کا اعلان بھی کیا تھا۔