حیات اور حالات
ایم سرور صدیقی
درویش کمال کی شخصیت تھے باتوںہی باتوںمیں ایسی معرفت کی بات کہہ ڈالتے کہ رشک ہوتا کہ کیا نکتہ آفرینی ہے کیا اس اندازسے بھی زندگی کو دیکھا اورپرکھا جاسکتاہے کئی حقیقتیں آشکارہوجائیں اور انسان علم و دانش کے دریا میں تیرتا پھرے اور دل تسلیم کرلے کہ وہ کئی رمزوںکے اسرارسے واقف ہوگیاہے ایک روز ان کے گردمعمول سے زیادہ ہجوم تھا جن میں زیادہ ترعلم کے متلاشی تھے،کچھ حالات کے مارے اور کچھ تعویز حل المشکلات کے حصول کے لئے اردگرد جمع تھے ۔درویش نے اپنے چہاراطراف پھیلے افراد پر ایک نظردوڑائی اور بڑی متانت سے کہا یہاں پرموجود لوگوں میںیقیناکچھ ایسے ہوں گے جن کا خیال ، ان میں سے بیشترکویقین تھا کہ بس بابا ایک پھونک مارے گا اور ہمارے مسائل حل ہوجائیں گے گویا بابا کی پھونک نہ ہوئی چراغ کا جن ہوگیا حالانکہ ایسا نہیں ہوتا یہ بابے اور درویش دین و دنیاکی بھلائی کیلئے پندونصیحت کرتے ہیں ویسے اپنی اپنی جنت اور اپنا اپناجہنم بنانے کے لئے ہر شخص قادرہے اسی بات کو علامہ اقبال نے سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ زندگی عمل سے بنتی ہے جنت بھی اور جہنم بھی لیکن آج کے دور میں ہر شخص شارٹ کٹ ڈھونڈتاپھرتاہے لیکن بیشترنہیں جانتے کہ نیکی کمانے کا شارٹ کٹ صلہ رحمی ہے درویش نے قریب بیٹھے لوگوں کا ہاتھ پکڑا اورباری باری درجنوں افراد کومٹھی عجوہ کھجوروں سے بھر دی، فرمایا کھاؤ اور ساتھ ہی ساتھ سوچ کر بتائو۔۔ بتاؤ تو بھلا ” حیات ” کِس کو کہتے ہیں..؟
ایک نے ترنت کہا زندگی کو..؟ انہوںنے سر پر ہلکی سی چپت لگا کر فرمایا ۔۔ نہیں نکمے ” حیات ” تو وہ ہوتی ہے جسے کبھی موت نہیں آتی . اس تناظرمیں سوچو۔۔ غور کرو جلدبازی اچھی بات نہیں اللہ نے تو واضح فرمایاہے کہ غوروفکرکرنے والوںکے لئے بہت سی نشانیاں ہیں دیکھو نہ اللہ تعالی کے احکامات کا ایک ایک لفظ ہیرے یاقوت و مرجان سے زیادہ پیارا اور قیمتی اور نصیحتوں سے بھرپور ہے اسی لئے اللہ تبارک تعالیٰ نے یہ نہیں کہا کہ اِسلام مکمل ضابطہ زندگی ہے بلکہ یوں کہا کہ مکمل ضابطہ ” حیات ” ہے اور حیات تو مرنے کے بعد شروع ہو گی جسے کبھی موت نہیں آئے گی۔پھر اسی اثنا ء میں چند خادم آب ِ زم زم لئے نمودارہوئے وہ گلاسوں میں ڈال ڈال کر شرکاء میں تقسیم کرنے لگے۔درویش کے ہونٹوںپر ایک دلکش تبسم تھا وہ فرمانے لگے اللہ نے اپنی ہزاروں مخلوقات کو زندگی عطا کی ہے لیکن حساب صرف انسانوں کا ہوگا یہ جوابدہی ہی زندگی کا اصل امتحان ہے ہمیںحیات کو سنوارنے کے لئے نیک اعمال کرنے کا پابندکیاگیاہے جو ایسا نہیں کرتا وہ تو اپنی زندگی کو بگاڑ لیتاہے بھلا یہ زندگی بھی بھلا کوئی زندگی ہے یہ وہ ” حیات ” ہے جِسکو موت آ جائے گی اصل تو وہ ” *حیات* ” ہے جِسکو کبھی زوال نہیں کبھی موت نہیں دوام ہی دوام ہے تو اللہ کے بندوںکو زندگی ایسے گزارنا چاہیے کہ ” حیات ” سنور جائے. اور میں زندگی میں یہ فلسفہ سمجھ لینا چاہیے کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ "حیات” ہے کا اصل مطلب کیا ہے.؟ درویش نے کہا اس کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے ۔۔زندگی کا ایک نقشہ یہ بھی ہے! شاید تخلیق کے وقت گدھے سے کہا گیا: تم باربرداری کے لئے اس دینا میں آئے ہو صبح سے شام تک بھاری بھرکم بوجھ اٹھاتے رہو گے اس کے عوض محض اجرت تمہاری خوراک ہوگی۔۔۔ تمہارے پاس کوئی عقل نہ ہوگی اور پچاس سال جیو گے۔ گدھا بولا: ٹھیک ہے میں گدھا ہوں گا لیکن پچاس سال بہت زیادہ ہیں۔ مجھے بس بیس سال دے دو۔۔۔۔۔ چنانچہ اس کی مراد پوری ہو گئی۔ مثال کے طور پرکتے سے کہا گیا ہوگا: تم انسانوں کے گھروں کی حفاظت کرو گے۔ ۔ انسان کے سب سے اچھے دوست ہوگے اور انسان سے بچی ہوئی چیزیں کھاؤ گے تم میں کئی صفات برگذیذہ بندوںمیں بھی پائی جائیں گی تمہاری زندگی تیس سال ہوگی کتے نے کہا تیس سال بہت ہیں، مجھے پندرہ سال درکار ہیں۔۔۔ چنانچہ اس کی بات مان لی گئی اسی طرح بندر سے کہا گیا: تم ایک شاخ سے دوسری شاخ پر چھلانگیں لگاتے اور اور دوسروں کو ہنسانے ے لئے طرح طرح کے کرتب دکھاتے رہو گے بچے تمہیں دیکھ کر خوش ہوں گے اور تمہاری زندگی بیس سال ہوگی۔ بندر نے کہا ہوگا بیس سال زیادہ ہیں، میں صرف دس سال جینا چاہتا ہوں۔۔۔ چنانچہ اس کی مراد بھی بھر آئی اب انسان سے کہا گیا ہوگا : تم روئے زمین پر سب سے زیادہ ذہین،فطین مخلوق ہو اور تم اپنی عقل کو دوسری مخلوقات کا سردار بننے، زندگی کو خوبصورت بنانے اور زمین کو آباد کرنے کے لئے کام میں لاؤ گے۔۔۔ تمہاری زندگی 50 سال ہوگی!۔۔ انسان نے جواب دیا ہوگا : صرف 50 سال الہی یہ عمر تو کم ہے انتہائی کم مجھے تو زیادہ زندگی درکارہے مجھے خاندان کے لئے کچھ کرنا ہوگا انسانیت کے لئے کچھ وقت چاہیے ہوگا جینے کے لئے انسان بنوں گا؟ یہ عمر بہت کم ہے!! مجھے وہ تیس سال درکار ہیں جو گدھے کو نہیں چاہئیں، وہ پندرہ سال بھی جن کی کتے کو ضرورت نہیں اور وہ دس سال بھی جن سے بندر نے انکار کیا یہ عمربھی مجھے عطا کردی جائے گمان ہے اسی زمانے سے انسان بیس سال انسان کی طرح گزارتا ہے ۔ اس کے بعد اس کی شادی ہو جاتی ہے۔ ۔ پھر تیس سال گدھے کی طرح دن رات محنت کرتاہے۔۔۔ طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک پسینہ بہاتا اور کام کرتا ہے۔ اپنی پیٹھ پر بوجھ اٹھاتا ہے۔ اور اس کے بعد جب اس کے بچے بڑے ہو جاتے ہیں۔۔۔ تو بڑھاپے میں کتے کی طرح گھر کی حفاطت کرتا اپنے بچوںکا خیال رکھتاہے زمانے کے بے رحم ہاتھوںسے بچانے کیلئے بڑے سے بڑے طوفان سے بھی ٹکرانے کی پرواہ نہیں کرتا ویسے بھی اللہ نے کتے کی تخلیق انسان کی مٹی سے کی ہے اسی لئے اگر کسی کو کتا کاٹ لے تو اس کی ویکسین پیٹ کی ناف میں لگائی جاتی ہے۔ درویش نے کہا اس کے بعد۔۔۔۔ جب انسان بوڑھا ہو جاتا ہے، تو دس سال بندر کی طرح ایسے گزارتا ہے اپنے پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوںکا دل بہلانے کے لئے کبھی ان کے لئے گھوڑا بن جاتاہے اور کبھی کوئی اپنے پوتے پوتیوں کو ہنسانے کے لئے عجیب عجیب کرتب دکھاتا اور کہانیاں سناتا رہتا ہے!! بس یہی زندگی ہے اور اس کا حاصل یہ ہے کہ اچھے لوگوںکو دنیا یادرکھتی ہے یہی زندگی اور حیات کافرق ہے دعاہے کہ ہم سب اس فرق کو جان لیں تو دین و دنیا میں سرخرو ہو سکتے ہیں۔