سوڈان:بغاوت مخالف احتجاج؛ہزاروں افراد کاخرطوم میں صدارتی محل کی طرف مارچ
خرطوم،دسمبر۔سوڈان میں 25 اکتوبرکی فوجی بغاوت کے خلاف دارالحکومت خرطوم میں اتوار کے روزہزاروں افراد نے احتجاجی مظاہرہ کیا ہے اور صدارتی محل کی طرف مارچ کیا ہے جبکہ سکیورٹی فورسز نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے اشک آور گیس کے گولے پھینکے ہیں۔21 نومبر کو وزیراعظم عبداللہ حمدوک کی فوج کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت بحالی اور سیاسی قیدیوں کی رہائی کے باوجود فوجی بغاوت کے خلاف مظاہرے جاری ہیں۔اتوار کو مظاہرین پہلے دارالحکومت میں صدارتی محل سے ایک کلومیٹرسے بھی کم فاصلے پر جمع ہوئے تھے اور وہ نعرے بازی کررہے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ اب ان کے لیے پیچھے ہٹنا ناممکن ہے۔وہ ملک میں جلد ایک سیاسی حکومت کے قیام کا مطالبہ کررہے ہیں۔عینی شاہدین نے بتایا کہ اس کے بعد مظاہرین صدارتی محل کی طرف روانہ ہوگئے تھے۔ وہ اشک آورگیس کے گولوں اور شورپیدا کرنے والے دستی بموں کے پھٹنے کے باوجود آگے بڑھتے رہے۔مظاہرین فوجی بغاوت کے خلاف گذشتہ نو مظاہروں کے بعد پہلی مرتبہ صدارتی محل کے دروازوں پر پہنچنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔فوری طور پر زخمیوں یا گرفتاریوں کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔خبروں کے مطابق عینی شاہدین کے حوالے سے بتایا کہ سکیورٹی فورسزنے دریائے نیل پر پلوں کورکاوٹیں کھڑی کرکے بلاک کردیا تھا مگراس کے باوجود مظاہرین جڑوان شہرام درمان کو خرطوم سے ملانے والے پل کوعبورکرنے میں کامیاب رہے ہیں لیکن انھیں اشک آور گیس کی شدید شیلنگ کا سامنا کرنا پڑا۔سوڈان کے دوسرے شہروں سے بھی مظاہروں کی اطلاعات ملی ہیں اور سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی تصاویر میں بحیرہ احمرکے ساحل پر پورٹ سوڈان اوردارفر کے مغربی علاقے الدیان سمیت شہروں میں نکالی گئی احتجاجی ریلیاں دیکھی جاسکتی ہیں۔قبل ازیں ہفتہ کی شب وزیراعظم عبداللہ حمدوک نے ایک بیان میں خبردارکیا تھاکہ سوڈان کے انقلاب کو ایک بڑے جھٹکے کا سامنا ہے اورہرطرف سے سیاسی ہٹ دھرمی سے ملک کے اتحاد اور استحکام کو خطرہ لاحق ہے۔سوڈانی فورسز نے خرطوم میں احتجاجی ریلی سے قبل ہوائی اڈے اور فوجی ہیڈ کوارٹرکی طرف جانے والی بڑی شاہراہوں کو بند کردیا تھا۔صدارتی محل کے اردگرد مشترکہ فوج اور سریع الحرکت فورس کی بھاری نفری تعینات کی گئی تھی۔سوڈانی ڈاکٹروں کی مرکزی کمیٹی کا کہنا ہے کہ فوجی بغاوت کے بعد مظاہرین کے خلاف سکیورٹی فورسز کے کریک ڈاؤن میں 45 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔سابق مطلق العنان صدرعمرالبشیر کی برطرفی کے بعد فوج اور سویلین سیاسی جماعتوں نے مشترکہ بندوبست کے تحت اقتدار سنبھالا تھا لیکن فوج نے اکتوبر میں وزیراعظم حمدوک اور ان کی حکومت کو برطرف کردیا تھا اور اقتدار پرمکمل قبضہ کرلیا تھا مگر بعد میں ان کی بحالی کے معاہدے نے مظاہرین کو ناراض کردیا ہے کیونکہ وہ اس سے قبل عبداللہ حمدوک کو فوجی حکمرانی کے خلاف مزاحمت کی علامت کے طور پر دیکھ رہے تھے اور انھوں نے فوج کے ساتھ وزیراعظم کے معاہدے کو دھوکا دہی پر مبنی قرار دیا تھا۔سول جماعتیں اورمزاحمتی کمیٹیاں سوڈانی فوج کے اقتدار پر قبضے کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے کررہی ہیں۔ وہ اب ’’کوئی مذاکرات، کوئی شراکت داری، کوئی قانونی حیثیت نہیں‘‘کے نعرے کے تحت مکمل سول حکمرانی کا مطالبہ کررہی ہیں۔