کیا سوشل میڈیا انسانی تہذیب کے لئے خطرناک ہے؟

عارف عزیز(بھوپال)
میڈیا کے پاس خبروں کی تصدیق اور ہر پارٹی کا موقف لینے کے لئے وافر وقت ہوتا تھا کیونکہ اخبار چوبیس گھنٹے کے بعد شائع ہوتا تھا۔ مارشل ملکوہان نے کہا تھا کہ ہر نئی ایجاد اپنے ساتھ نئی تہذیب بھی لے کر آتی ہے۔ الیکٹرانک میڈیا چوبیس گھنٹے خبریں دیتا ہے۔ مزید براں اُسے بریکنگ نیوز کے کلچر کا بھی سامنا ہے۔ اکثر رپورٹر کے پاس تصدیق کے لئے وقت نہیں ہوتا۔ یوں الیکٹرانک میڈیا کی ذمہ داری کے امکانات کم ہوجاتے ہیں۔
سوشل میڈیا نے انسانی معاشرے کو نئے چیلنجوں سے متعارف کرایا ہے۔ سوشل میڈیا اکثر غیر ذمہ داری کے شاہکار تخلیق کرتا ہے اور یہ وائرل ہو کر بہت سے افراد اور خاندانوں کے لئے خاصے بڑے مسائل کا سبب بن جاتا ہے۔ سائبر کرائم کے قوانین کے تحت غیر ذمہ دار افراد کے خلاف کارروائی ہوتی ہے، مگر عدالتوں کا نظام خاصا پیچیدہ ہے۔ آکسفورڈ انٹرنیٹ انسٹی ٹیوٹ کی ایک رپورٹ منظر عام پر آئی ہے۔ اس کے محققین کا کہنا ہے کہ سرکاری ایجنسیوں اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے کم از کم ۷۰ ممالک میں سوشل میڈیا اور رائے عامہ کو گمراہ کرنے کی منظم کوششیں کی جارہی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ دو سالوں کے دوران اس طرح کی کوششیں دوگنا ہوچکی ہیں۔ برطانوی انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر فلپ ہاورڈ کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پر عوامی رائے کو گمراہ کرنا جمہوریت کے لئے شدید خطرہ ہے۔ بریڈ شاکا کہنا ہے کہ اگرچہ سوشل میڈیا بھی جمہوریت اور آزادی کے لئے ایک قوت کی علامت تھا، مگر بڑے پیمانے پر غلط معلومات کے پھیلانے، تشدد پر اکسانے کی بنا پر اس کے کردار پر سوال اٹھائے جارہے ہیں۔
سوشل میڈیا کس طرح معاشرے کو تبدیل کر رہا ہے؟ اس پر خاصی تحقیق ہورہی ہے اور ہر تحقیق سے تقریباً یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ سوشل میڈیا موجودہ دور میں رائے عامہ کو متاثر یا گمراہ کرنے والا سب سے بڑا ہتھیار بن گیا ہے۔ سی آئی اے، کے جی بی، موساد اور راجیسی انٹیلی جنس ایجنسیوں پر الزام لگایا جاتا ہے کہ ان کے سوشل میڈیا کے بڑے بڑے سیٹ اَپ ہیں، جو ان کے فراہم کردہ مواد کو اپنے تخلیقی جوہر کے ساتھ استعمال کرتے ہیں اور دنیا کو ہلا کر رکھ دیتے ہیں۔ اس سے سیاسی حکومتوں کے لئے مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ اسٹاک ایکسچینج میں بڑی تیزی کے ساتھ اتار چڑھاؤ آتے ہیں۔ عوام میں خوف و ہراس پھیلتا ہے۔ حال ہی میں ہونے والا ایک امریکی سروے بھی یہی بتا رہا ہے کہ امریکیوں کو سوشل میڈیا پر بے قابو اطلاعات و معلومات اور خبروں سے پریشانی لاحق ہوگئی ہے۔ انہیں یکطرفہ، جانبدارانہ، غلط معلومات اور غیر معیاری خبروں پر شدید تشویش ہے۔ سوشل میڈیا نے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی پہلے تو مدد کی اب انہیں پریشان کر رکھا ہے۔ سوشل میڈیا بہت برے طریقے سے ان کی خبر لے رہا ہے۔ اسلامی ممالک کے خلاف تو ایک بڑے پیمانے پر منظم مہم جاری ہے۔ جس میں مختلف حوالوں سے اسلام کا غلط تصور پیش کیا جاتا ہے۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے بعد اب سوشل میڈیا اس پروپیگنڈا میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ سوشل میڈیا معاشروں میں جتنی تیزی سے بے یقینی کے جراثیم پھیلا رہا ہے اس کا دفاع کرنا انتہائی مشکل ہوگیا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سوشل میڈیا انسانی تہذیب کو کسی بڑے خطرے سے دوچار کر دے گا۔

 

Related Articles