اُردو صحافت کے میدان میں خواتین کی نمائندگی
ڈاکٹر مرضیہ عارف( بھوپال)
خواتین کو آدھی دنیا سے تعبیر کیا جاتا ہے لیکن اِس آدھی دنیا کی اردو صحافت میں نمائندگی شروع سے محدود رہی ہے، حالانکہ جنگِ آزادی میں خواتین نے مردوں کے شانہ بشانہ حصّہ لیا لیکن صحافت میں وہ خال خال ہی نظر آتی ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ ۲۰ویں صدی کی تیسری و چوتھی دہائی تک اُردو میں کئی رسالے ایسے مل جاتے ہیں، جن میں خواتین نے اپنے نام سے یا قلمی نام سے عصری موضوعات خاص طور پر عورتوں کے سماجی مسائل، اُن کے حقوق اور تعلیم پر لکھا ہے، جس کا مقصد عورتوں کی آزادی تو نہیں، اُن میں سیاسی و سماجی اور معاشی شعور پیدا کرنا تھا۔ علی گڑھ میں خواتین کی تعلیم کے محرک شیخ عبداللہ نے ’نسواں کالج‘ قائم کیا تو خواتین کو اِس سے بہت حوصلہ ملا، وہ افسانے اور ناول نگاری کے میدان میں قدم بڑھانے لگیں، پھر بھی اُردو صحافت میں اُن کا سرگرم داخلہ ۸۰ کی دہائی میں نظر آیا، جب وہ روزناموں میں بھی کام کرتی نظر آئیں۔
جہاں تک خواتین کے اخبارورسائل کی اشاعت کا سوال ہے تو سب سے پہلے مولوی سیّد احمد دہلوی نے ۱۸۸۴ء میں ’اخبار النساء‘ کے نام سے پہلا باقاعدہ خواتین کا رسالہ دہلی سے نکالا، جو مہینہ میں تین مرتبہ شائع ہوتا تھا، اِس کے بعد سیّد ممتاز علی نے ہفت روزہ ’تہذیب نسواں‘ لاہور سے جاری کیا۔ یہ ۱۹۴۹ء تک نکلتا رہا، اِس کا مقصد خواتین کو اُمورِ خانہ داری سے آشنا کرنے کے ساتھ ساتھ اُن میں ادبی ذوق پیدا کرنا تھا، اپنی اشاعت کے پچاس سال کے دوران اِس کے لکھنے والوں میں مولانا عبدالمجید سالک، امتیاز علی تاجؔ، احمد ندیم قاسمی جیسے مرد اہلِ قلم اور نذر سجاد حیدر، محمدی بیگم، حجاب امتیاز علی، زبیدہ زرّیں، سلطانہ آصف فیضی، صغریٰ ہمایوں جیسی ممتاز خواتین قلم کار شامل تھیں۔
۲۰ویں صدی کے شروع میں شیخ عبداللہ کا ’خاتون‘، بیگم خاموش کا ’پردہ نشین‘، راشدالخیری کا ’عصمت‘، منشی محبوب عالم کا ’شریف بی بی‘ منظرِ عام پر آئے لیکن جس کو خاتون ایڈیٹر کا رسالہ ہم قرار دے سکتے ہیں وہ صغریٰ بیگم کا ’النساء‘ ۱۹۱۹ء میں حیدرآباد سے نکلا، بعد میں خواجہ حسن نظامی نے خواجہ بانو کی اِدارت میں ۱۹۲۶ء میں ضخیم رسالہ ’تبلیغِ نسواں‘ شروع کیا، جس میں تعلیم کے فروغ، معاشرہ کی اصلاح اور تاریخ ومذہب کی معلومات پر مضامین شائع ہوتے تھے، سعادت سلطانہ کا ’نورجہاں‘ امرتسر سے، مریم بیگم کا ’خادمہ‘ حیدرآباد سے، پٹنہ سے صالحہ خاتون کا ’عفت‘، عطیہ بیگم کا باتصویر رسالہ ’معینِ نسواں‘، علی گڑھ سے رضیہ ہاجرہ کا ’ثریا‘، آگرہ سے منظرِ عام پر آئے۔
حیدرآباد جو شروع سے اُردو صحافت کا مرکز رہا ہے، یہاں خواتین کے رسائل کا سراغ ۱۹ویں صدی کے آخر سے ملتا ہے، پہلا رسالہ ’معلم نسواں‘ ۱۸۹۲ء میں محب حسین نے نکالا، جو کئی حیثیتوں سے حیدرآباد کی اُردو صحافت میں نمایاں نام ہے۔ وہ کافی روشن خیال اور حقوقِ نسواں کے حامی تھے، اِسی لیے ‘’معلم نسواں‘ کے ذریعہ نو برس تک عورتوں کے حقوق کے لیے جدوجہ کرتے رہے، حیدرآباد کے رسائل ’خادمہ‘ اور ’النساء‘ کا ذکر گزر چکا ہے، ساتھ ہی ’ہم جولی‘، ’مومنہ‘، اور ’سفینۂ نسواں‘ کے ذریعہ بھی صادقہ قریشی اور اختر قریشی نے خواتین کی صحافت کو آگے بڑھانے میںحصّہ لیا، ۱۹۲۹ء میں عصمت آرا حجاب نے میرٹھ سے ’خاتونِ مشرق‘ نکال کر مشرقی و اسلامی روایات کی ترویج کا کام انجام دیا۔ حمیدالنساء کا ’خیابانِ دکن‘ بھی حیدرآباد کا قابلِ ذکر رسالہ تھا، جس نے طالبات کی ذہنی تربیت میں حصّہ لیا، خواتین کے مذکورہ رسائل کی عمر زیادہ نہیں ہوئی، اِن کے ناموں کا ایک قابلِ غور پہلو یہ ہے کہ رسالوں کے نام لینے سے ہی اُن کے رجحان و ترجیحات کا اندازہ ہوجاتا ہے، دوسرا پہلو جس کی نشاندہی سرگرم خاتون صحافی نورجہاں ثروت نے کی، یہ ہے کہ اُس زمانہ کے بیشتر خواتین کے رسائل میں نام ضرور کسی خاتون کا درج ہوتا لیکن بیشتر کے مرتب کرنے والے مرد ہوتے،جو اپنی بیوی یا دیگر کسی عزیزہ کا نام ایڈیٹر کی حیثیت سے استعمال کرتے لیکن اُن کا صحافت تو دور ادب سے بھی کوئی تعلق نہیں تھا۔
مثال کے طور پر سابق ریاست بھوپال سے خواتین کا پہلا رسالہ ’الحجاب‘ ۱۹۰۹ء میں سیّد محمد یوسف قیصر نے جاری کیا، اِس کے بعد ’اُمہات‘ قمرالنساء بیگم کی اِدارت میں شائع ہوا، اِس سے تحریک پاکر اُسی سال ’بانو‘ منظرِ عام پر آیا، تیسرا ماہنامہ ’آفتابِ نسواں‘ ۱۹۳۹ء میں نکلا۔ بظاہر سرور جہاں اور انورجہاں اِس کی ایڈیٹر تھیں۔ ایک اور پندرہ روزہ ’افشاں‘ آزادی کے فوراً بعد ۱۹۴۷ء میں جاری ہوا اور ایڈیٹر کی حیثیت سے الطاف قمر (بیگم حکیم سیّد قمرالحسن) اور پروین رشدی (اہلیہ اے۔آر۔رُشدی)کے نام درج تھے لیکن حقیقت میں اشتیاق عارف اِسے مرتب کرتے تھے، بھوپال کے اوّل الذکر رسالوں کے بارے میں بھی گمان یہی ہے کہ نام ضرور خواتین کے سامنے آئے لیکن مرد صحافی ہی اِسے مرتب کرتے تھے، تحقیق سے یہی مثالیں دوسرے شہروں میں بھی سامنے آئیں گی کیونکہ آثاروقرائن یہی بتاتے ہیںکہ اُس زمانہ میں نام خواتین کا اور لکھنا مردوں کی ذمہ داری ہوا کرتا تھا۔
آزادی سے پہلے کی طرح بعد کے دور کا جائزہ لیا جائے تو یہی اندازہ ہوتا ہے کہ آزادی کی جدوجہد اور عورتوں کی بیداری کی تحریکات کے باعث ہندوستانی خواتین میں قلم کے استعمال کا شوق و جذبہ ضرور پروان چڑھا، لیکن آج کے معنوں میں جنھیں صحافی کہا جاتا ہے، اُن کی تعداد انگلیوں پر گنے جانے کے قابل تھی۔ انگریزی صحافت میں خواتین کی نمائندگی ۱۹۶۰ء سے بڑھ گئی، انیس جنگ، نکہت کاظمی، حمیرہ قریشی، سعدیہ دہلوی وغیرہ جبکہ سیما مصطفی ہمہ وقت صحافی ہیں، اُردو میں پہلی کُل وقتی صحافی کا اعزاز بھوپال کی خالدہ بلگرامی کو حاصل ہوا، جنھوں نے ۱۹۷۸ء میں روزنامہ ’آفتابِ جدید‘ جوائن کیا اور بائیس سال تک اُردو کی یومیہ صحافت میں مصروفِ عمل رہیں۔ نورجہاں ثروت نے اِن کے بعد روزنامہ اخبارات کی صحافت میں قدم رکھا۔ ’قومی آواز‘ اور ’انقلاب‘ میں کام کرکے نیز کالم نگاری کی خدمات انجام دے کر اپنی ملک گیر شناخت قائم کی۔خواتین کی نمائندگی کا ایک قابلِ ذکر رسالہ ’روشنی‘ تھا جو ہاجرہ بیگم دہلی سے نکالتی تھیں، اِس کے سرِورق پر انجمن خواتینِ ہند کا ماہنامہ رسالہ درج ہوتا تھا اور خواتین پر ہی مضامین شائع ہوتے تھے۔
یہاں خواتین کے دو اہم رسائل کا ذکر ضروری ہے، جو آزادی سے پہلے جاری ہوئے لیکن برسوں پابندی کے ساتھ نکلتے رہے۔ جدید طرز کا رسالہ ’بانو‘ جس کو سعدیہ دہلوی مرتب کرتی تھیں، بہت مقبول ہوا لیکن بند ہوگیا، ’خاتونِ مشرق‘ جو پُرانے ڈھنگ کا رسالہ ہے اور آج بھی شائع ہورہا ہے۔ خواتین کا ایک اور اہم رسالہ ’حریم‘ ہے، جو ۱۹۳۰ء سے شائع ہورہا ہے۔ ماہنامہ ’حجاب‘ رامپور بھی ۱۹۶۸ء سے شائع ہورہا ہے اور اُمّ صہیب اِس کی ایڈیٹر ہیں۔ اِن کے علاوہ بھی کئی رسائل ہیں، جو خواتین نکال رہی ہیں۔ بھوپال کی سلطانہ حجاب نے برسوں روزنامہ ’ندیم‘ میں کام کیا اور اس کے لیے خواتین کا صفحہ بھی مرتب کیا۔ اُردو صحافت میں اپنی پہچان بنانے والی ممبئی کی شیریں دلوی ہیں، جو ’اودھ نامہ‘ کی ایڈیٹر تھیں، دوسری کشمیر نژاد صحافی عالیہ ناز جے این یو کی تعلیم یافتہ ہیں اور بی بی سی کا اُردو پروگرام پیش کرتی ہیں، وسیم راشد نے روزنامہ ’راشٹریہ سہارا‘ سے اُردو صحافت میں قدم رکھا لیکن آج اُردو ہفت روزہ ’چوتھی دنیا‘ کی مدیرہ ہیں۔ نازیہ نوشاد ’راشٹریہ سہارا‘ پٹنہ کی اور زرّیں فاطمہ ’انقلاب‘ پٹنہ کے نائب مدیر کی خدمات انجام دے رہی ہیں۔ ڈاکٹر شمع افروز زیدی دہلی اُردو اکادمی کے بچوں کے رسالے ’اُمنگ‘ کے سب ایڈیٹر اور ۲۰ویں صدی کی ایڈیٹر رہی ہیں، اِسی طرح ’محفلِ صنم‘ کی ایڈیٹر کی حیثیت سے شہلا نواب اُردو صحافت میں اپنی مخصوص شناخت رکھتی ہیں۔ ’پاکیزہ آنچل‘ مقبولِ عام ڈائجسٹ ہے جسے غزالہ صدیقی سلیقہ کے ساتھ مرتب کررہی ہیں۔
صحافت کا ایک اہم شعبہ ادبی صحافت ہے، جس کی نمائندگی جرائد و رسائل کے ذریعہ ہوتی ہے۔ الٰہ آباد سے شائع ہونے والا سہ ماہی ’پہچان‘ ادبی و تنقیدی رسالہ ہے اِس کی ادارت زیب النساء اور اشفاق نعیم کے سپرد ہے۔ ایک اور ادبی رسالہ ’شعروحکمت‘ میں فاطمہ شعری معاون مدیرہ کی حیثیت سے کام کررہی ہیں۔ مقبول عام ادبی رسالہ ’آج کل‘ دہلی میں نرگس سلطانہ معاون ایڈیٹر کی حیثیت سے طویل عرصہ تک خدمات انجام دے چکی ہیں، خواتین کا رسالہ ’بزمِ ادب‘ علی گڑھ سال میں ایک بار جنوری میں شائع ہوتا رہا ہے اور اِس کی ایڈیٹر مشہور ادیب و شاعر خلیل الرحمن اعظمی کی اہلیہ راشدہ خلیل ہیں۔ اِسی طرح ’بزمِ ادب‘ کو خواتین کی صحافت میں اِس لیے امتیاز حاصل ہے کہ اِس میں صرف خواتین کی ہی تحریریں شائع ہوتی ہیں۔ ڈاکٹر رضیہ حامد جو افسانہ نگار، ناقداور محقق بھی ہیں طویل عرصہ سے سہ ماہی ’فکروآگہی‘ نکال رہی ہیں، اِس کے ضخیم خاص نمبروں نے بڑی مقبولیت حاصل کی ہے۔ مشہور ادیبہ پروفیسر شفیقہ فرحت نے اپنا ادبی کیریئر صحافت سے ہی شروع کیا اور ماہنامہ ’کرنیں‘ ناگپور سے نکالا تھا، بھوپال آکر بھی انھوں نے ادبی رسائل کے لیے مستقل لکھا اور طنزومزاح نگار کی حیثیت سے اپنی کُل ہند شناخت قائم کی۔ مشہور افسانہ نگار سلمیٰ صدیقی نے بھی اپنے پہلے شوہر خورشید عالم منیری کے ساتھ مل کر دہلی سے ادبی ماہنامہ ’شعاعیں‘ ۱۹۵۰ء میں نکالا تھا۔ کرشن چندر کے تعاون سے اِسے مقبولیت بھی ملی لیکن جاری نہیں رہ سکا۔
زبان و ادب کی ترقی میں روزنامہ اخبارات اور ادبی رسائل کا شروع سے بنیادی حصّہ رہا ہے، جن کے ذریعہ نئی نسل کی ذہنی تربیت اور اپنی زبان کے رموز ونکات سے آگاہی ہوتی رہی ہے۔لہٰذا قومی اُردو صحافت میں خواتین کی نمائندگی پر مشتمل اِس تفصیلات کے بعد اُردو روزناموں میں خواتین کے لیے جو مخصوص مواد شائع ہورہاہے اِس کا ذکر بھی ضروری ہے۔ ہندوستان کے سبھی اہم اُردو روزناموں میں عورتوں کے لیے صفحات یا کالم مخصوص ہیں۔ جن میں اوّل خواتین کے مضامین، کہانی، نظم، غزل یا اُن کے مسائل کو لیا جاتا ہے۔ بمبئی کے روزنامہ ’انقلاب‘ (آٹھوں ایڈیشن) اور ’اردوٹائمز‘ کے علاوہ کلکتہ کے ’اخبارِ مشرق‘(سات ایڈیشن)، آبشار‘، ’آزاد ہند‘، پٹنہ کے ’قومی تنظیم‘، حیدرآباد کے ’سیاست‘ اور ’منصف‘، دہلی اور حیدرآبادکے ’ملاپ‘، ’صحافت‘ ، ’ہمارا سماج‘دہلی، لکھنؤ کے ’آگ‘ اور بنگلور کے ’سالار‘، ’پاسبان‘ یا بھوپال کے ’ندیم‘ وغیرہ میں ہفتہ کے کسی ایک دن خواتین کے لیے مخصوص مواد کی اشاعت عرصہ سے ہورہی ہے۔ روزنامہ ’راشٹریہ سہارا‘ کے سبھی ایڈیشنوں میں بھی اتوار کے دن شائع ہونے والے ’اُمنگ‘ میں نصف صفحہ خواتین کے لیے مخصوص ہے۔
عالمی پیمانے پر جائزہ لیں تو خاتون صحافیوں کی خدمات سے سب سے زیادہ مستفید ہونے والا شعبہ پہلے ریڈیو اور آج ٹی وی ہے، ریڈیو اور ٹی وی پر اُردو خبریں پڑھنے والی خواتین نے کروڑوں سامعین سے اپنی صلاحیت کا لوہا منوایا ہے۔ برصغیر ہندوپاک ہی نہیں بی بی سی لندن، وائس آف امریکہ، ریڈیو ماسکو اور ہندوستان و پاکستان کی مختلف ریاستوں میں بچوں کے اُردوپروگرام خواتین ہی کمپیر کررہی رہی ہیں، ٹی وی پر بھی اُن کی نمائندگی مسلسل بڑھ رہی ہے۔
اِس جائزہ سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں، خواتین کی جس طرح ہر شعبے میں نمائندگی بڑھ رہی ہے اُردو صحافت میں بھی اُن کی پیش رفت جاری ہے۔