پیغمبر اسلام ﷺ کو سچا نذرانہ عقیدت

عارف عزیز (بھوپال)

پیغمبر اسلام حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی ولادت بابرکت انسانی تاریخ کا سب سے اہم واقعہ ہے جس نے گذشتہ ۱۴ برسوں میں کروڑوں نہیں اربوں انسانوں کو نہ صرف متاثر کیا بلکہ ان کو صلاح وفلاح کی راہ بھی دکھائی اسی نسبت وتعلق کی بناء پر یہ دن خاص اہتمام کے ساتھ منایاجاتا ہے جس میں عموماً سیرت کے جلسوں کا اہتمام ہوتا ہے اور دیگر عنوانات سے پورے مہینے مختلف پروگرام ہوتے ہیں۔ عام طور پران پروگراموں کی نوعیت طے کرتے وقت اپنی پسند خواہش اور نام ونمود کے جذبے کی تسکین کا زیادہ لحاظ رکھاجاتا ہے، اس بات کو اہمیت نہیں دی جاتی کہ جس برگزیدہ ہستی کی یاد میں پروگرام مرتب کیا جاتا ہے اس کی سیرت اور تعلیمات کیا ہیں اور ان کو اس طرح اجاگر کیا جائے جس سے مسلمانوں کی تربیت ہو اور غیر مسلم بھی متاثر ہوں، خاص طور پر ایک ایسے دور میں جبکہ اسلام کے دشمنوں کی طرف سے اسلام اور پیغمبر اسلام کی سیرت کو مسخ کرکے پیش کیا جارہا ہو تو اس بات کی ضرورت زیادہ محسوس ہوتی ہے کہ ہم برادران وطن کو بتائیں کہ پیغمبر اسلام کیسے تھے، انہوں نے کتنی سادگی اور وقار کے ساتھ زندگی بسر کی، گمراہ راہ انسانیت کی کیا راہ نمائی کی۔
اس سلسلہ میں صرف الفاظ وجذبات کا دریا بہادینا کافی نہ ہوگا بلکہ ہماری یہ بھی ذمہ داری ہے کہ اس کا عملی نمونہ بھی دنیا کے سامنے پیش کریں کیونکہ ہم مسلمانا پنے نبی کے نام لیوا ہی نہیں ان کی تعلیمات کے امین بھی ہیں۔ یہ خیال دل میں اس لئے بھی پیدا ہوتا ہے کہ ربیع الاول کی تقریبات کہیں دسہرے اور محرم کے جلسوں اور میلوں کی شکل نہ اختیار کرلیں، جس ستودہ صفات ذات کی یاد میں یہ سب ہوتا ہے اس کی روایتی نہیں حقیقی محبت وعقیدت ہی ہمارا سب سے بڑا سرمایہ ہے، پھر جس ملک اور سماج میں ہم سانس لے رہے ہیں یہاں شجر، حجر، دریا اور پہاڑ سب کی پرستش ہوتی ہے اور عام طور پر اپنے قومی یا مذہبی پیشوائوں کی یاد میں جشن بشکل میلہ بھی منایاجاتا ہے، اگر ہم نے ربیع الاول کی تقریبات کو اس کی نقل یا مقابلہ میں منانا شروع کردیا تو یقینا ان کا مقصد ہی فوت ہوجائے گا۔
نظریئے اور مسلک کی بحث سے قطع نظر بحیثیت ایک صحافی بلکہ مسلمان، میرا ذاتی خیال ہے کہ ایک صاحب دعوت امت کی حیثیت سے ہم کو اپنے پیغمبر کی بعثت سے متعلق تقریبات کا بامقصد اور تعمیری رنگ دینے کی کوشش کرنا چاہئے مثال کے طور پر ہمارا دعویٰ ہے کہ نبی علیہ السلام سراپا رحمت تھے، سرگرم زندگی بسر کرنے کے باوجود وہ مریضوں کی عیادت، یتیموں کی سرپرستی، بیوائوں کی خبر گیری اور کمزوروں کی مدد کے لئے وقت فارغ کرلیتے تھے ، انہوں نے مسلمانوں کو تعلیم دی ہے کہ تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو لوگوں کو زیادہ سے زیادہ نفع پہونچائے۔ یوں تو یہ تعلیم صرف ربیع الاول کے لئے نہیں پوری زندگی کیلئے ہے اور سچے مسلمانوں کی شان یہی ہے کہ وہ جس حال میں جہاں ہوں خود تکلیف اٹھاکر دوسروں کو راحت پہونچائیں لیکن کم سے کم ماہ ربیع الاول کی تقریبات مناتے وقت جو کثیر رقم جلسوں ، جلوسوں اور دیگر تقریبات پر خرچ کردیتے ہیں، وہ اپنے نبی کی زندگی اور تعلیمات کا عملی نمونہ لوگوں کے سامنے پیش کریں۔
سیرت کی کتابوں میں ایک چھوٹا سا مگر نہایت سبق آموز واقعہ ملتا ہے کہ پیغمبر اسلام ۱۰ ہزار فدائیوں کے ساتھ فاتحانہ شان سے مکہ میں داخل ہورہے ہیں دشمن اسلام میںبھگدڑ مچی ہوئی ہے اسی موقع پر حضور پاکؐ کی نظر ایک ضعیفہ پر پڑتی ہے جو راستے کے کنارے بیٹھی اپنا سامان اٹھانے میں لگی ہے مگر ضعف کے باعث کامیاب نہیں ہوتی۔ آپؐ رک کر ضعفیہ سے سوال کرتے ہیں کہ اسے کہاں جانا ہے، ضعیفہ نے جواب دیا سنا ہے ایک شخص محمد ؐ نام کا آرہا ہے وہ سب کا سامان لوٹ لے گا اس لئے کسی پناہ کی تلاش میں ہوں۔ حضورؐ نے اس ضعیفہ سے نہ کوئی بحث کی اور نہ اپنی صفائی پیش کی۔ بلکہ اس کا سامان اٹھاکر جہاں اس نے کہا وہاں پہونچا دیا۔ جب ضعیفہ نے اپنے محسن کا نام پوچھا تو حضورؐ نے اپنا نام بتادیا۔ اس طرح دشمنان اسلام کی پھیلائی ہوئی افواہوں سے جو بدگمانی ضعیفہ کے دل میں پیدا ہوئی تھی فوراً دور ہوگئی اور خاموش عمل سے حقیقت حال واضح ہوگئی۔ آج ایسی ہی صورت حال سے اکیسویں صدی کے مسلمان بھی دو چار ہیں، اسلام کے دشمن طرح طرح کی باتیں پھیلاکر بدگمانی میں اضافہ کررہے ہیں جو تقریروں اور تحریروں سے زیادہ عمل سے دور ہوسکتی ہے اس لئے ہمارا مشورہ ہے کہ ربیع الاول کے پروگراموں میں سماجی خدمت اور رفاہی امور کو شامل کیا جائے یہی پیغمبر اسلام کو مسلمانوں کا سچا نذرانہ عقیدت ہوسکتا ہے۔٭

 

Related Articles