داعش کے حملوں میں اضافہ، کیا شدت پسند تنظیم طالبان کے لیے خطرہ بن رہی ہے؟

کابل،اکتوبر۔افغانستان میں طالبان کے کنٹرول کو دو ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن حالیہ عرصے میں دہشت گردی کے متعدد واقعات کی ذمے داری قبول کرنے کے بعد شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ (داعش) طالبان حکومت کے لیے چیلنج بن چکی ہے۔داعش نے حال ہی میں طالبان کا گڑھ سمجھے جانے والے شہر قندھار اور قندوز کی مساجد میں خود کش حملے کیے تھے جن میں 100 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔گو کہ طالبان حکومت داعش کو زیادہ بڑا خطرہ نہیں سمجھتی، تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ شدت پسند تنظیم افغانستان میں امن کی راہ میں بدستور ایک بڑی رکاوٹ ہے اور طالبان اس حقیقت سے صرفِ نظر نہیں کر سکتے۔خیال رہے کہ طالبان ترجمان سہیل شاہین نے حال ہی میں اس امکان کو بھی رد کیا تھا کہ وہ امریکہ کے ساتھ مل کر داعش کے خلاف لڑ سکتے ہیں۔علاقائی اور عالمی ماہرین ان خدشات کا اظہار کر رہے ہیں کہ اگر طالبان اپنے گڑھ قندھار جیسے علاقے کو شہریوں کے لیے محفوظ بنانے کی صلاحیت نہیں رکھتے تو مستقبل میں نہ صرف ملک کے حالات مزید سنگین ہو سکتے ہیں بلکہ خانہ جنگی کے امکانات میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے۔افغان امور کے ماہر اور شدت پسندی کے موضوع پر تحقیق کرنے والے سوئیڈن میں مقیم محقق عبدالسید کا کہنا ہے کہ داعش کا طالبان کے گڑھ قندھار کی مسجد پر حملہ بظاہر یہ باور کرانے کی کوشش ہے کہ داعش اب بھی افغانستان میں اثر رکھتی ہے۔خیال رہے کہ طالبان کا یہ مؤقف رہا ہے کہ داعش صرف افغانستان کے صوبوں ننگرہار اور کنڑ میں ہی اثر و رسوخ رکھتی تھی، لیکن اب وہاں سے بھی اس کا خاتمہ کر دیا گیا ہے۔عبدالسید کا مزید کہنا تھا کہ یہ داعش کا عالمی دنیا کے لیے بھی ایک پیغام ہو سکتا ہے کہ اگر طالبان اپنے مضبوط گڑھ کو داعش کے حملوں سے محفوظ نہیں رکھ سکتے تو وہ بیرونی ممالک کو کیسے ضمانت دے سکتے ہیں کہ افغانستان سے داعش ان کے لیے خطرہ نہیں بن سکتی۔گزشتہ ہفتے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک انٹرویو میں یہ واضح کیا تھا کہ داعش کی افغانستان میں کوئی نمایاں موجودگی نہیں ہے اور اسے خود کو پوشیدہ رکھنا پڑتا ہے۔اْنہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ طالبان اس گروہ کی جڑیں تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس ضمن میں داعش سے تعلق رکھنے والے متعدد افراد کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے عبدالسید کا کہنا تھا کہ داعش اب افغانستان میں زیرِ زمین تنظیم بن چکی ہے۔ ماضی کی طرح اس کا کسی علاقے پر کوئی باضابطہ قبضہ نہیں رہا اور نہ ہی اس کے جنگجوؤں کی تعداد کا درست تخمینہ لگایا جا سکتا ہے۔اْن کے بقول گزشتہ برس جب ڈاکٹر شہاب المہاجر اس تنظیم کے نئے سربراہ مقرر ہوئے ہیں اس کے بعد سے افغانستان میں داعش کے حملوں میں شدت آئی ہے۔خیال رہے کہ داعش نے چند برس قبل افغانستان اور پاکستان میں داعش خراساں کے نام سے اپنی ذیلی شاخ قائم کرنے کا اعلان کیا تھا۔عبدالسید کہتے ہیں کہ اشرف غنی کی حکومت ایک مربوط انٹیلی جنس نظام اور امریکی خفیہ ایجنسیز کے تعاون کے باوجود داعش کا مکمل خاتمہ کرنے میں ناکام رہی تھی۔ لہذٰا طالبان کے لیے تنِ تنہا اس خطرے سے نمٹنا مشکل ہو گا۔خیال رہے کہ چند روز قبل افغان صوبے کنڑ میں ایک جھڑپ کے دوران تین طالبان جنگجو ہلاک جب کہ گزشتہ ہفتے کنڑ میں ہی ایک ایک دھماکے میں طالبان پولیس چیف ہلاک جب کہ 10 سے زائد افراد زخمی ہو گئے تھے۔
داعش کے لیے افغانستان میں اس وقت ماحول سازگار ہے
سینئر افغان صحافی زبیر بابکر خیل کا کہنا ہے کہ پہلے داعش کا وجود ننگر ہار اور کابل کے کچھ علاقوں تک محدود تھا تاہم طالبان کا افغانستان کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد سے شدت پسند تنظیم کی استعداد میں بظاہر اضافہ ہوا ہے۔وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے مزید بتایا کہ اس سے قبل داعش کے حملے قندھار اور قندوز میں سامنے نہیں آئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ گزشتہ دورِ حکومت میں ایک منظم انٹیلی جنس ادارہ تھا۔ فوج تھی جو کہ داعش کی کارروائیوں پر نظریں جمائے ہوئی تھی۔زبیر بابکرخیل کا مزید کہنا تھا کہ اس وقت داعش کے لیے افغانستان میں زمینی حالات بہت سازگار ہیں کیونکہ طالبان اب تک حکومت سازی کے عمل کو مکمل نہیں کر پائے ہیں۔ اور اس وقت افغانستان میں کوئی باقاعدہ نظام نہیں ہے۔زبیر کے بقول انہیں خدشہ ہے کہ افغانستان میں شدت پسندی کی کارروائیوں میں اضافہ ہو گا اور ان کا دائرۂ کار دوسرے صوبوں میں بھی پھیلے گا اور مستقبل میں طالبان اور داعش کے درمیان جھڑپوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔دوسری جانب کابل میں مقیم سیاسی تجزیہ نگار نصرت حقپال طالبان اور داعش کے درمیان تازہ ترین جھڑپوں کو پرانی دشمنی کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ دونوں جنگجو قوتیں ایک دوسرے کے خلاف آمنے سامنے آ گئی ہیں۔وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے مزید بتایا کہ طالبان کے لیے ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ کچھ مذہبی جماعتوں نے بھی داعش کے ساتھ الحاق کر لیا ہے۔اْن کے بقول دوسری جانب کچھ عالمی طاقتیں بھی یہ نہیں چاہتیں کہ طالبان افغانستان میں پر امن طریقے سے حکومت کریں۔ لہذٰا کچھ عالمی قوتیں جو مبینہ طور پر افغانستان میں اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہی ہیں وہ داعش کو طالبان کے خلاف منظم کرنے میں مدد کر سکتی ہیں۔نصرت اللہ حقپال کا مزید کہنا تھا کہ وہ تمام تجزیے بھی اب غلط ثابت ہوئے ہیں جن میں کہا جاتا تھا کہ بیرونی طاقتوں کے جانے کے بعد افغانستان امن کا گہوارہ بن جائے گا۔ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ طالبان عوام کو باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ داعش پر بہت جلد قابو پا لیں گے تاہم وہ نہیں سمجھتے کہ یہ مسئلہ اتنی آسانی سے حل ہو جائے گا۔ تاہم اس سارے جھگڑے اور فساد کا نقصان افغانستان کے عوام کو ہو گا جو گزشتہ چار دہائیوں سے بد امنی کی بھاری قیمت چکاتے رہے ہیں۔

Related Articles