’امریکہ کو دنیا میں منفرد بنانے والی قانون سازی‘

واشنگٹن،ستمبر۔امریکہ کی ریاست آئیوا کے شہر ڈی موئین میں پبلک اسکول کے طلبہ نے احتجاج کا مںصوبہ بنایا۔ یہ 1969 کا دور تھا اور یہ طلبہ بازوؤں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر ویت نام جنگ کے خلاف ایک خاموش احتجاج کرنا چاہتے تھے۔اسکول کے پرنسپل کو طلبہ کے اس منصوبے کا علم ہو گیا۔ انہوں نے طلبہ کو خبردار کیا کہ اگر وہ بازؤں پر پٹیاں باندھ کر اسکول آئے تو انہیں معطل کر دیا جائے گا۔ پرنسپل کا خیال تھا کہ اس انداز میں احتجاج سے اسکول کا تعلیمی ماحول متاثر ہو گا۔پرنسپل کی تنبیہ کے باجود بعض طلبہ طے شدہ پرگرام کے تحت بازوؤں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر اسکول آئے جس کے بعد انہیں معطل کر دیا گیا۔احتجاج پر معطل کیے گئے طلبہ کے والدین نے آئیوا کی ڈسٹرکٹ کورٹ سے رجوع کیا اور یہ مؤقف اختیار کیا کہ اسکول انتظامیہ کا یہ اقدام بچوں کے آزادیٔ اظہار کے حق کی خلاف ورزی ہے۔ لیکن ڈسٹرکٹ کورٹ نے اسکول انتظامیہ کے حق میں فیصلہ دیا۔طلبہ نے اس فیصلے کے خلاف متعلقہ وفاقی کورٹ آف اپیلز سے رجوع کیا۔ یہاں بھی ان کے خلاف فیصلہ آیا جسے کے بعد یہ معاملہ امریکہ کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ میں چلا گیا۔سپریم کورٹ کے نو میں سے سات ججوں کی اکثریت نے فیصلہ دیا کہ امریکہ کے آئین کی پہلی ترمیم کے مطابق طلبہ اور اساتذہ کو حاصل اظہار کی آئینی آزادی اسکول کے دروازے کے باہر تک نہیں۔ اس لیے محض اس خدشے کی بنیاد پر کہ کوئی تقریر و تحریر تعلیمی ماحول کو متاثر کر سکتی ہے اسے روکا نہیں جا سکتا۔اس کیس کو ٹنکر بنام ڈی موئین کہا جاتا ہے اور امریکہ میں بالخصوص تعلیمی اداروں میں طلبہ کے حقوق سے متعلق ایک تاریخی فیصلہ قرار دیا جاتا ہے۔امریکہ میں جب بھی بنیادی حقوق کا سوال اٹھتا ہے تو اس میں ’پہلی ترمیم‘ اکثر حوالہ بنتی ہے۔ ٹنکر بنام ڈی موئین سے پہلے اور بعد میں بھی کئی مقدمات میں آئین میں دی گئی تحریر و تقریر، اجتماع اور مذہب سے متعلق آزادیوں کا حوالہ دیا گیا ہے۔ اسی لیے یہ ترمیم ’بل آف رائٹس‘ یعنی حقوق کا بل کہلاتی ہے۔امریکہ کی 13 ریاستوں نے برطانوی نو آبادیاتی حکومت سے آزادی کے لیے چار جولائی 1776 کو متفتہ ’اعلانِ آزادی‘ منظور کیا تھا۔اس اعلان کے بعد امریکہ میں نظامِ حکومت کا تعین کرنے کے لیے ایک دہائی بعد آئین لکھنے کے لیے جیمز میڈیسن، الیگزینڈر ہیملٹن 1787 میں فلاڈلفیا میں جمع ہوئے۔امریکہ کی حکومتی دستایزات کے آرکائیو کی ویب سائٹ کے مطابق 6 اگست 1787 کو آئین کا پہلا مسودہ بحث کے لیے منظور کرلیا گیا۔ جس کے بعد آئین سازی سے متعلق اختلافات سامنے آئے۔امریکہ سے برطانوی نو آبادیات کے خاتمے کے بعد طرز حکومت سے متعلق دو مختلف نظریات پائے جاتے تھے۔مضبوط مرکز اور آئین کے تحت ریاستوں کو لانے کے حامی افراد کو ’فیڈرلسٹ‘ کہا جاتا تھا اور جو لوگ مقامی سطح پر حکومتوں کے قیام کے حامی اور کسی مرکزی آئین کے مخالف ’اینٹی فیڈرلسٹ‘ تھے۔ریاست ورجینیا کے گورنر پیٹرک ہنری اینٹی فیڈرلسٹس کے سرکردہ رہنما تھے اور وہ آئین کی توثیق کے خلاف تھے۔امریکہ میں قانون سازی کی تاریخ پر مبنی مضامین کے مجموعے ’فاؤنڈنگ امریکہ‘ کے مطابق اینٹی فیڈرلسٹ فکر کے حامیوں کو خدشہ لاحق تھا کہ برطانوی آبادیات کے خاتمے کے بعد بننے والی نئی ریاست کے لیے جو آئین تیار کیا جارہا ہے اس میں ریاستوں سے زیادہ تر اختیارات لے کر مرکزی حکومت کو دیے جارہے ہیں۔فاؤنڈنگ امریکہ کی تدوین کرنے والے جیک این راکو نے اس مجموعۂ مضامین کے تعارف میں لکھا ہے کہ برطانوی نوآبادیات میں حکومتی اختیارات کے تجربات کی وجہ سے بہت سی ریاستیں ایک مضبوط اور بااختیار مرکزی حکومت کے قیام سے گریزاں تھیں۔اس کے علاوہ ان کا ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ آئین میں عوام کے حقوق کی وضاحت نہیں کی گئی ہے۔فیڈرلسٹ نمائندوں کو خدشہ تھا کہ کہیں آئین کی منظوری کا معاملہ مزید تاخیر کا شکار نہ ہو یا ان کا مؤقف سرے ہی سے مسترد نہ ہو جائے۔اس لیے آئین سازی کے حامی جیمز میڈیسن نے حقوق بل کا مسودہ تیار کیا اور اس میں اینٹی فیڈرلسٹ نمائندوں کے زیادہ سے زیادہ مطالبات شامل کرنے کی یقین دہائی کرائی۔اس کے علاوہ تین سرکردہ فیڈرلسٹ نمائندوں جیمز میڈیسن، الیگزینڈر ہیملٹن اور جان جے نے آئین کے دفاع اور عوامی رائے سازی کے لیے ایک منفرد طریقہ اختیار کیا۔ان تینوں نمائندگان نے آئین کے نفاذ سے متعلق پائے جانے والے خدشات دور کرنے کے لیے ’پبلی اس‘ کے نام سے اخبارات میں مضامین لکھنا شروع کیے۔ ان مضامین فیڈرلسٹ پیپرز کہا جاتا ہے۔ ان تینوں نمائندوں نے اس عرصے میں کل 85 مضامین لکھے تھے۔اکتوبر1787 سے اگست 1788 تک شائع ہونے والے ان مضامین میں آئین کے حامی ان نمائندوں نے آئین کے نفاذ سے متعلق پائے جانے والے شبہات کا ازالہ کیا اور تمام ممکنہ سوالوں کے جواب دیے۔ان مضامین کو آج بھی امریکہ کا آئین بنانے والوں کے مقاصد سمجھنے کے لیے اہم ترین ماخذ سمجھا جاتا ہے۔فاؤنڈنگ امریکہ اور اور حکومتی آرکائیو کے مطابق اگرچہ ابتدا میں صرف 13ریاستیں ہی ایک مرکزی حکومت قائم کر رہی تھیں۔ لیکن ان کا رقبہ بھی کم نہیں تھا۔ اس لیے اینٹی فیڈرلسٹ فکر کے حامیوں کا خیال تھا کہ بڑے رقبے کی وجہ سے نمائندگی، حقوق کے تحفظ جیسے مسائل حل کرنا مشکل ہو گا۔اس کے علاوہ اتنے بڑے رقبے پر پھیلی مختلف موسموں اور ماحول میں بسنے والی آبادی بھلا ایک مرکزی حکومت کے نیچے کیسے جمع ہو سکتی ہے۔فیڈرل پیپزر میں سب سے زیادہ مشہور دسواں مقالہ ہوا جو الگ الگ ریاستی حکومتوں کے قیام کے انہی دلائل کا جواب تھا بلکہ اس میں الگ الگ ریاستیں قائم کرنے کے خطرات گنوائے گئے اور یہ موقف اختیار کیا گیا کہ وسیع رقبہ ہی دراصل ایک مرکزی حکومت کا تقاضا کرتا ہے۔اسی طرح 51 ویں مضمون میں آئین کے ڈھانچے، اس میں اختیارت کے توازن اور عوامی حقوق کی تفصیلات بتائی گئی تھیں۔آئین سے متعلق بہت سے امور پر بحث جاری تھی اور ساتھ ہی ریاستوں نے اس کی توثیق بھی شروع کر دی تھی۔ سات دسمبر 1787کو ڈیلاویئر وہ پہلی ریاست تھی جس نے آئین کی توثیق کی اور ایک کے بعد ایک ریاست نے یہ آئین کو تسلیم کرنا شروع کر دیا۔ اس وقت 13 ریاستوں کے نمائندے آئین سازی کر رہے تھے جن میں سے نو ریاستوں کی توثیق درکار تھی۔جنوری 1788 تک نو ریاستیں اس کی توثیق کر چکی تھیں۔ اس طرح فیڈرلسٹوں کا پلڑا بھاری تھا۔ بعد میں نو مارچ 1789 کو اس آئین کے تحت کنفیڈریشن کانگریس کا قیام عمل میں آ گیا۔ اس کے بعد بھی آئین پر بحث کا خاتمہ نہیں ہوا اور دیگر ریاستوں کو آئین کی توثیق پر آمادہ کرنے کی کوششیں جاری رہیں۔فیڈرلسٹس یہ یقین دہانی کرا رہے تھے کہ آئین کو تسلیم کرنے کی صورت میں عوام کو اپنے حقوق سے دستبردار نہیں ہونا پڑے گا۔امریکی سینیٹ کے ریکارڈ کے مطابق آئین بنانے والوں میں سے اکثر کا خیال تھا کہ آئین ایک مرکزی حکومت کے قیام کے لیے بنیادی دستاویز ہے۔ ریاستیں اپنی اپنی سطح پر پہلے ہی عام لوگوں کے حقوق کی یقین دہانی کرا چکی ہیں۔اس کے باوجود بعض ریاستوں کا مطالبہ تھا کہ حقوق کے لیے الگ سے بل منظور کیا جائے۔ چار ریاستوں نے حقوق بل کی منظوری کی شرط پر آئین کی توثیق کی تھی۔امریکی سینیٹ کی ویب سائٹ کے مطابق آئین کے دفاع میں پیش پیش جیمز میڈیسن اس وقت ورجینیا کی نمائندگی کررہے تھے اور اپنی ریاست میں بنیادی حقوق کے لیے قانون سازی کے مطالبے کو دیکھتے ہوئے انہوں نے آئین میں 12 ترامیم کا مسودہ تیار کیا۔اس وقت بعض ارکان نے یہ اعتراض بھی کیا کہ نئے آئین میں فوری تبدیلی مناسب نہیں ہو گی لیکن بنیادی حقوق سے متعلق خدشات کو دور کرنے کے لیے 25 ستمبر 789 1کو یہ ترامیم بحث کے لیے پہلی کانگریس میں پیش کر دی گئیں۔اس کے بعد بحث اور نظر ثانی کا ایک اور دور چلا۔ جس کے بعد 1791 میں تجویز کردہ 12 ترامیم میں سے10 کو منظور کرلیا گیا۔ آئین میں ہونے والی ان ابتدائی 10ترامیم کو بل آف رائٹس بھی کہا جاتا ہے۔آئین میں بنیادی حقوق کی فراہمی کے لیے کئی گئی یہ پہلی ترمیم اعتبار سے بعد میں ہونے والی قانون سازی سے مختلف ہے۔سینیٹ کی ویب سائٹ کے مطابق آج امریکہ میں آئین میں پیش کی گئی ترمیم کی منظوری کے لیے وقت کی حد بھی مقرر کی جاتی ہے۔ لیکن پہلی مرتبہ متعارف کی گئی ترامیم کی منظوری کے لیے وقت مقرر نہیں کیا گیا تھا۔ان میں سے دس ترامیم تو اسی دور میں آئین کا حصہ بن گئیں لیکن ایک مجوزہ ترمیم کی توثیق ہونے میں 203 سال کا عرصہ لگ گیا اور بعد میں اسے ستائیسویں ترمیم کے طور پر آئین میں شامل کیا گیا۔یہ ترمیم کانگریس میں تنخواہوں کے اضافے سے متعلق تھی۔ اس کے مطابق کانگریس کے نمائندوں کی تنخواہ میں اضافہ نئے انتخابات سے قبل نہیں کیا جاسکتا۔آئین میں پہلی بار تبدیلیوں کے لیے پیش کی گئی بارہ کی بارہ ترامیم منظور نہیں ہوئی تھیں۔ ان میں سے یہ تجویز مسترد کردی گئی تھی کہ آبادی کے ہر 50 ہزار افراد پر ایک کانگرس نمائندہ ہونا چاہیے۔اس بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ 1789 کے حالات کے اعتبار سے تو یہ پچاس ہزار آبادی پر ایک نمائندے کی حد حقیقت پسندانہ معلوم ہوتی ہے۔لیکن امریکہ کی موجودہ آبادی کو دیکھا جائے تو اس شرط کے لاگو ہونے سے آج امریکہ ایوان نمائندگان میں ارکان کی تعداد 6000ہوتی اور ان کا اجلاس کسی ایوان کی عمارت میں نہیں بلکہ اسٹیڈیم میں منعقد کرنا پڑتا۔پہلی ترمیم یا حقوق بل کو امریکہ میں عوامی حقوق کے لیے ہونے والی قانون سازی کے لیے ایک بڑی کامیابی قرار دیا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس قانون سازی کو دنیا میں امریکہ کا طرۂ امتیاز بھی قرار دیا جاتا ہے۔آزادیٔ اظہار کے حقوق کے لیے آگاہی فراہم کرنے والے ایک غیر سرکاری امریکی ادارے ’دی فری اسپیچ سینٹر‘ کے مطابق پہلی ترمیم میں تقریر، مذہب، میڈیا، اجتماع اور حکومتی فیصلے کے خلاف عدالت سے رجوع کرنے کے جو حقوق دیے گئے ہیں وہ امریکیوں کو دنیا کی آزاد ترین قوم بناتے ہیں۔اس کے علاوہ پہلی ترمیم میں فراہم کردہ حقوق کے لیے کسی قانونی عمر کا تعین نہیں کیا گیا ہے۔ یہ ہر امریکی کا پیدائشی حق ہے اور امریکہ میں ان حقوق کے حصول کے لیے شہریت کی شرط بھی عائد نہیں ہوتی ہے۔فری اسپیچ سینٹر کے مطابق پہلی ترمیم حکومت کے مقابلے میں عوام کے حقوق کو تحفظ فراہم کرتی ہے لیکن نجی اداروں کو اپنے قواعد و ضوابط متعین کرنے سے نہیں روکتی۔

Related Articles