فرینک مورٹن: خلائی سٹیشن پر سبزی کے نام پر سلاد پتا اگانے والے شخص کی کہانی

لندن،ستمبر۔خلابازوں کو خلا میں صحت مند رہنے کے لیے بڑی مقدار میں سبزی کی ضرورت ہوتی ہے لیکن مدار کے اندر ان کی کاشت کیسے ممکن ہے؟ شاید ایک شخص ہے جس کے پاس اس کا حل موجود ہے۔فرینک مورٹن آریگون میں اپنے گھر پرواز کرنے سے پہلے نیو یارک میں اپنے دوست کے ساتھ کاشتکاروں اور باورچیوں کی ایک نمائش میں تھے جب ان کے دوست نے کہا: ’یہ دیکھو! انھوں نے سپیس سٹیشن پر لیٹس (سلاد پتا یا کاہو) کاشت کیا ہے۔‘ان کی دوست نے اپنا موبائل پر اس کی تصویر دکھائی۔ مگر مورٹن پر اس کا اثر اس وقت ہوا جب انھوں نے ایک رسالے کے اندر خلا میں اگائی گئی لیٹس کی تصویر دیکھی۔مورٹن نے تحقیق کرنے والی ٹیم سے رابطہ کیا۔یہ وہی لیٹس تھی جس کو پہلے مورٹن نے سلاد کے مختلف پتوں کے ملاپ سے پیدا کیا تھا اور پھر اس کے بیج بازار میں فروخت کے لیے بھیج دیے تھے۔اس کا نام انھوں نے آؤٹریڈجیئس رکھا تھا۔چند سال بعد ان ہی بیجوں کا تجربہ خلا میں کیا گیا۔انھوں نے لیٹس کی کاشت کو اپنا پیشہ بنا لیا ہے۔اور ان کے تیار کردہ لیٹس کا خلائی سفر 40 برس قبل اس وقت شروع ہوا تھا جب انھوں نے سبز رنگ کے پتوں میں سرخ رنگ کا ایک پودا دیکھا تھا۔سنہ 1981 میں انھوں نے لیٹس اگانے کے کام کا آغاز کیا۔ پہلے انھوں نے دو مختلف طرح کے لیٹس اگائے۔ جب وہ پک کر بیج دینے پر آئے تو انھوں نے کچھ بیج آئندہ فصل کے لیے بچا کر رکھ لیے۔وہ کہتے ہیں ’جب اگلی فصل اگی تو سبز پتوں میں ایک پودا سرخ بھی تھا جسے دیکھ کر میں حیران رہ گیا۔’میں سمجھ گیا کہ یہ دو مختلف اقسام کی مخلوط شکل یا کراس ہے۔‘انھوں نے اگلے سال مزید کراس پیدا کیے جو مختلف رنگوں اور شکلوں کے تھے۔سلاد کی نت نئی اقسام پیدا کرنے سے ان کی دلچسپی میں اضافہ ہوا ہی ساتھ ہی ان کی مالی پوزیشن بھی بہتر ہو گئی۔سرخ رنگ کے آؤٹریڈجیئس کی دریافت لیٹس کی دنیا میں ایک غیر معمولی اضافہ تھی کیونکہ اس وقت لیٹس ہرے رنگ کے ہوتے تھے۔وہ کہتے ہیں ’اس کا رنگ اتنا لال تھا کہ بہت سے باغبان اسے بطور لیٹس شناخت ہی نہ کر سکے۔ وہ سمجھے یہ چقندر کی کوئی قسم ہے۔ میں نے اسی لیے اس کا نام آؤٹریڈجیئس رکھا۔‘مورٹن نے آؤٹریڈجیئس کا تخم بازار میں فروخت کے لیے پیش کیا۔ جب انھوں نے امریکی خلائی ادارے ناسا کی اس ٹیم سے رابطہ کیا جس نے آؤٹریڈجیئس کی خلا میں کاشت کی تھی اور انھیں اس کی ایک اور غیر معمولی خاصیت کا بھی علم ہوا۔جب سائنسدان اپنے تجربے کے لیے سلاد کے بیج تلاش کر رہے تھے تو وہ سبز سلاد کی ایسی اقسام کی تلاش میں تھے جو آسانی سے جراثیم کا گھر نہ بن جائیں۔وہ نہیں چاہتے تھے کہ خلا باز خلا کے اندر سلاد کھانے کی وجہ سے پیٹ کے امراض میں مبتلا ہو جائیں۔یہ خوبی آؤٹریڈجیئس میں موجود تھی۔آج کل مورٹن سلاد اگانے کے کئی منصوبوں پر کام کر رہے ہیں۔ان کا کہنا ہے ’میں گلاب نما سلاد خریدنا چاہوں گا۔‘اس سلسلے میں انھوں نے آئسبرگ کی افزائش پر کام شروع کر دیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ’یہ آئسبرگ کی طرح ہے، سوائے اس کے کہ باہر سے یہ سرخ ہے، اور میری کوشش ہے کہ اندر سے یہ گلابی ہو۔ میں تو کہوں گا کہ میرے پاس لیٹس کی بعض بہت خوبصورت اقسام موجود ہیں۔‘

 

Related Articles