کورونا وائرس کہاں سے آیا، سائنسدانوں نے ممکنہ جواب جان لیا

کورونا وائرس کی وبا کو اب 9 ماہ سے زیادہ ہوچکے ہیں مگر سائنسدان تاحال یہ جاننے کی کوشش کررہے ہیں کس طرح یہ جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوا۔
اب ایک تحقیقی ٹیم نے بظاہر اس کا جواب تلاش کرلیا ہے۔جریدے نیچر مائیکرو بائیولوجی میں شائع تحقیق میں امریکا، چین اور یورپ کے سائنسدانوں کی ٹیم نے کووڈ 19 کا باعث بننے والے سارس کوو 2 میں تبدیلیوں کا موازنہ دیگر وائرسز سے کیا اور پھر متعلقہ وائرسز کی ارتقائی تاریخ کو تشکیل دیا۔انہوں نے دریافت کیا کہ کووڈ 19 کی وبا کا باعث بننے والا وائرس چمگادڑوں میں پایا جاتا ہے۔محققین کا کہنا تھا کہ ہمارے تجزیے میں اجتماعی طور پر چمگادڑوں کی جانب اشارہ کیا جو اس وائرس کا بنیادی ماخذ ہے، ایسا ممکن ہے پینگولین یا کسی اور جانور نے عارضی میزبان کی شکل میں اسے انسانوں میں منتقل کیا ہو، موجودہ شواہد سے یہی عندیہ ملتا ہے کہ اس وائرس کا ارتقا چمگادڑوں میں ہوا، جو انسانوں اور پینگولینز کی اوپری نظام تنفس میں اپنی نقول بناسکتا ہے۔

درحقیقت تحقیقی ٹیم کا تو کہنا تھا کہ نوول کورونا وائرس کا ارتقا اس پرندے میں پائے جانے والے دیگر وائرسز کے ساتھ 40 سے 70 سال قبل ہوا۔انہوں نے کہا کہ چمگادڑوں میں یہ وائرس دہائیوں پہلے سے موجود تھا مگر اس کا علم پہلے نہیں ہوسکا۔انہوں نے مزید بتایا کہ سارس کوو 2 وائرس 96 فیصد حد تک آر اے ٹی جی 13 کورونا وائرسز سے مماثلت رکھتا ہے جن کے نمونے 2013 میں چین کے صوبے یوننان کی ہارس شو نامی نسل کی چمگادڑوں سے حاصل کیے گئے تھے، مگر یہ 1969 میں ان وائرسز سے الگ ہوگیا تھا۔محققین کے مطابق نوول کورونا وائرس کی ایک خاصیت ان وائرسز کی پرانی اقسام سے مماثلت رکھتی ہے جو ریسیپٹرز کو جکڑنے والے اسپائیک پروٹین ہیں، جن سے وہ انسانوں کے ریسیپٹرز کو اپنے قابو میں کرتے ہیں۔تحقیق میں بتایا گیا کہ انسانی ایس ٹو ریسیپٹر کو ہدف بنانے والی خاصیت چمگادڑوں میں پائے جانے والے وائرسز کا ورثہ ہے۔محققین کے مطابق اس کا مطلب ہے کہ انسانوں کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھنے والے دیگر وائرسز چین کی ان چمگادڑوں میں گردش کررہے ہیں۔ماہرین نے بتایا کہ دیگر محققین کا یہ خیال غلط ہے کہ پینگولینز میں جاکر نوول کورونا وائرس میں ایسی تبدیلیاں آئیں جن سے وہ انسانوں میں منتقل ہوسکا، درحقیقت سارس کوو 2 کا آر ڈی بی سیکونس تاحال بہت کم پینگولین وائرسز میں دریافت ہوا ہے۔انہوں نے کہا کہ اگرچہ یہ ممکن ہے کہ پینگولین نے عارضی میزبان کا کردار ادا کرکے انسانوں تک اسے پہنچایا ہو، مگر ایسے شواہد موجود نہیں جن سے عندیہ ملتا ہو کہ پینگولین کی بیماری چمگادڑ کے وائرسز کو انسانوں میں منتقل کرنے کے لیے ضروری ہو، ہماری تحقیق سے معلوم ہوتا کہ یہ نوول وائرس انسانوں اور پینگولینز دونوں کی نظام تنفس کی بالائی نالی میں اپنی نقول بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

انہوں نے زور دیا کہ چمگادڑوں کے بہتر نمونے وبائی جراثیموں کی شناخت اور مستقبل میں وبائی امراض کی روک تھام کے لیے بہت ضروری ہیں۔انہوں نے کہا کہ انسانی امراض کی رئیل ٹائم مانیٹرنگ کے نظام اور کامیاب نگرانی وبائی امراض کی روک تھام کی کنجی ہے، یہ جاننا کہ کونسے وائرسز پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے اور کس طرح وہ انسانوں کو بیمار کرسکتے ہیں، بہت اہم ہے، جس سے ہم کسی اور سارس وائرس کے لیے زیادہ بہتر طریقے سے تیار ہوسکیں گے۔

Related Articles