فیفا کے سربراہ قطر کی حمایت میں پھٹ پڑے

یورپ اگلے 3000 برسوں تک معافی مانگے

دوحہ،نومبر۔ فیفا کے سربراہ قطر پر یورپی ملکوں میں انسانی حقوق کے بارے میں جاری مخالفانہ مہم کے بارے میں پھٹ پڑے۔ انہوں نے خود کو ایک عرب اور قطری فرد محسوس کرنے کا کہتے ہوئے کہا یورپ کے ملکوں کو اپنی لیکچر بازی بند کرنی چاہیے۔ اگر مزدوروں اور نوجوانوں کے حقوق کی اتنی فکر ہے تو اپنے ہاں موقع دیں زبانی ہمدردیاں نہ جتلائیں۔فیفا سربراہ گیانی انفینٹینو نے یورپی اقوام کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہ ہم یورپی لوگ پچھلے 3000 سال سے انسانوں کے ساتھ جو سلوک کر رہے ہیں اس کے ازالے کے لیے ہمیں 3000 سال تک انسانوں سے معافی مانگنا ہوگی۔انہوں نے ان خیالات کااظہار اپنی پہلی باضابطہ پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران کیا جہاں تقریبا 45 منٹ تک قطر اور ورلڈ کپ کے لیے اس کے انتظامات کا پوری طرح دفاع کیا۔قطر 2010 سے اس وقت سے مخالفانہ تنقید کا سامنا کر رہا ہے جب سے اس نے ورلڈ کپ اپنے ہاں کرانے کا عندیہ دیا تھا۔ تاہم ابھی کچھ عرصے سے بعض یورپی ملکوں نے قطر میں مزدوروں کے حقوق اور ان کو ملنے والے معاوضوں کے بارے میں ایک مہم ایسے وقت میں شروع کی جب ورلڈ کپ محض چند ہفتے کے فاصلے پر رہ گیا تھا۔یورپ کی تنقید کا ایک بڑا حصہ سٹیڈیم کے اندر شراب کی فروخت پر پابندی کے فیفا کے تازہ فیصلے کے بعد سامنے آیا۔ تاہم فیفا کے سربراہ نے سٹیڈیم میں شراب کی فروخت کے فیصلے کا بڑھ چڑھ کر دفاع کیا ہے۔فیفا سربراہ اپنی قطر میں اس پہلی پریس کانفرنس میں یورپ کے ناقدین پر تقریبا پھٹ پڑے اور انہون نے یورپی دنیا کی انسانیت کے خیرخواہی کا بھانڈا ہی پھوڑ ڈالا۔واضح رہے فیفا کے سربراہ گیانی انفینٹنو خود بھی یورپ ہی کے رہنے والے ہیں اس لیے انہوں نے یورپ پر تنقید بھی کھل کر کی ہے۔انہوں نے قطر پرجاری یورپی ملکوں میں تنقید کو یورپ کے دوہرا معیار قرار دیا۔ جبکہ قبری حکومت اور انتظامیہ کے ورلڈ کپ کے سلسلے میں انتظامات کی بھر پور تحسین و تائید کی۔فیفا سربراہ کہا میں آج اپنے آپ کو ایک قطری کے طور پر محسوس کر رہا ہوں، میں خود کوایک عرب شہری کے طور پر محسوس کرتا ہوں۔ ایک افریقی سمجھتا ہوں۔ ایک ہم جنس پرست سمجھتا ہوں، ایک معذور کے طور پر دیکھتا ہوں اور ایک تارک وطن کارکن کے طور پر محسوس کرتا ہوں۔انہوں نے اس موقع پر قطر کی امیگریشن پالیسی کا دفاع کیا اور تعریف کی کہ قطر نے اتنی بڑی تعداد میں دوسرے ملکوں کے کارکنوں کو اپنے ہاں اتنی بڑی تعداد میں روزگار کے مواقع دے رکھے ہیں۔فیفا سربراہ نے قطر کی امیگریشن پالیسی کے دفاع کے دوران کہا ہم یورپی ملک اپنی سرحدیں بند کر دیتے ہیں اور ان ملکوں کے لوگوں کو نہیں آنے دیتے جن میں آمدنی کی شرح بہت نیچے ہوتی ہے۔انہوں نے زور دے کر کہا اگر یورپ واقعی مزدوروں اور نوجوانوں سے کوئی ہمدردی رکھتا ہے تو اسے بھی قطر کی طرح ان لوگوں کے لیے کچھ عملی طور پر کرنا ہوگا ، صرف زبانی کلامی لیکچرز کی ضرورت نہیں ہے۔حالیہ دہائیوں کے دوران قطر میں قدرتی گیس کے حوالے سے آنے والی ترقی نے ملک میں روزگار کے مواقع بہت بڑھا دیے ہیں۔ اس کے ہاں کارکنوں کے لیے حالات کار کی لندن میں موجود انسانی حقوق گروپ ایکیویڈیم نے بھی تعریف کی ہے۔تاہم بعض لوگ کہتے ہیں ابھی بھی مزدوروں کو قانونی تحفظ کے حوالے سے مسائل کا سامنا ہے۔

 

Related Articles