سری نگر میں تاریخی ماتمی جلوس کو نکالنے کی کوششیں ناکام، درجنوں عزادار گرفتار

سری نگر، جموں و کشمیر کے گرمائی دارالحکومت سری نگر میں جمعے کے روز گرو بازار علاقے سے برآمد ہونے والے تاریخی ماتمی جلوس کو نکالنے کی کوششوں کو پولیس نے ایک بار پھر ناکام بنا دیا۔
انتظامیہ کی طرف سے نافذ پابندیوں کے باوجود بھی جمعے کی دوپہر سے قبل ہی نوجوان عزاداروں کی ایک اچھی خاصی تعداد بتہ مالو علاقے میں جمع ہوئی اور ہاتھوں میں بینر اٹھائے اور ‘لبیک یا حیسن’ کے نعروں کی گونج میں ڈل گیٹ جہاں یہ ماتمی جلوس اختتام پذیر ہوا کرتا تھا، کی طرف چہل قدمی شروع کی۔
تاہم وہاں تعینات پولیس نے حرکت میں آکر سیاہ لباس میں ملبوس عزاداروں کو آگے بڑھنے سے روکا اس دوران درجنوں عزاداروں کو حراست میں لیا گیا۔ پولیس کارروائی میں کچھ عزاداروں کو معمولی نوعیت کی چوٹیں بھی آئیں۔
سری نگر کے گرو بازار سے برآمد ہونے والے 8 ویں محرم الحرام کے تاریخی ماتمی جلوس پر گزشتہ تین دہائیوں سے پابندی عائد ہے۔
قبل ازیں انتظامیہ نے ماتمی جلوس کی برآمدگی کی روک کو یقینی بنانے کے لئے سری نگر کے مرکز لالچوک اور اس کے متصل علاقوں میں سخت پابندیاں نافذ کی تھیں۔
انتظامیہ نے آٹھ پولیس تھانوں بشمول بتہ مالو، شہید گنج، کرا نگر، مائسمہ، کوٹھی باغ، شیر گڑھی، کرال کھڈ اور رام منشی باغ کے تحت آنے والے علاقوں میں پابندیاں نافذ کی تھیں۔
ذرائع نے بتایا کہ بتہ مالو، ریزیڈنسی روڈ، ڈلگیٹ، رام منشی باغ اور مائسمہ میں سڑکوں کو سیل کردیا گیا تھا اور تجارتی مرکز لالچوک میں تمام دکانیں بند تھیں۔
دریں اثنا صوبائی کمشنر کشمیر پی کے پولے نے وادی میں مذہبی جلوسوں و بڑے اجتماعوں پر پابندی جاری رہنے کی بات دہرائی ہے۔
انتظامیہ نے وادی میں 16 اگست سے عبادت گاہیں کھولنے کا اعلان کیا تھا تاہم مذہبی جلوسوں اور بڑے اجتماعوں پر پابندی جاری رکھی تھی۔
پابندیوں کے باوصف ہر سال آٹھ محرم کو عزادار سری نگر میں جمع ہوکر جلوس عزا برآمد کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس کو پولیس ناکام بنا دیتا ہے۔
ایک عزادار نے یو این آئی اردو کو بتایا کہ انتظامیہ پابندیاں نافذ کرتی رہے لیکن ہم بھی ہر سال کسی بھی صورت میں جلوس برآمد کرنے کی کوششوں سے باز نہیں رہیں گے تاکہ تاریخ زندہ رہے۔
انہوں نے کہا کہ کسی نہ کسی برس ہمیں پر امن طریقے سے جلوس عزا برآمد کرنے کی اجازت دی جائے گی۔
کشمیر میں سری نگر کے گروبازار اور آبی گذر (تاریخی لال چوک) علاقوں سے برآمد ہونے والے 8 ویں اور 10 ویں محرم الحرام کے تاریخی ماتمی جلوسوں پر وادی کشمیر میں ملی ٹینسی کے آغاز یعنی 1989 سے پابندی عائد ہے۔
سنہ 1989 سے قبل 8 ویں محرم کا ماتمی جلوس سری نگر کے گرو بازار علاقے سے برآمد ہوکر شہید گنج، جہانگیر چوک، بڈشاہ چوک اور مولانا آزاد روڑ سے ہوتا ہوا حیدریہ ہال ڈل گیٹ میں اختتام پذیر ہوتا تھا۔
ان دو تاریخی ماتمی جلوسوں پر سنہ 1989 میں اُس وقت کے ریاستی گورنر جگ موہن نے پابندی عائد کردی تھی۔ اُس وقت مرکز میں مرحوم مفتی محمد سعید وزیر داخلہ کے عہدے پر فائز تھے۔
اگرچہ پابندی کے خلاف جموں و کشمیر اتحاد المسلمین نے سنہ 2008 میں جموں وکشمیر ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا تاہم کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔
کشمیری شیعہ مسلمانوں کا کہنا ہے کہ محرم جلوسوں پر عائد پابندی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ ‘عالمی منشور اور ہندوستانی آئین کے تحت مختلف مذاہب کے ماننے والے لوگوں کو مذہبی معاملات بجا لانے، مذہبی تقریبات کا انعقاد کرنے اور مذہبی جلوس نکالنے کا حق حاصل ہے مگر کشمیر میں انتظامیہ حالات کو بنیاد بناکر دو تاریخی محرم جلوسوں پر پابندی لگائی ہوئی ہے’۔
دریں اثنا جموں و کشمیر اتحاد المسلمین کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ اس کے زیر اہتمام سے 8 محرم الحرام کو سری نگر کا تاریخی جلوس عزاداری جمعے کی صبح کو فائر سروس کراسنگ بتہ مالو سے برآمد ہوا۔
اس میں کہا گیا: ‘سینکڑوں کی تعداد میں حسینی عزاداروں نے کووڈ 19 کے پیش نظر تمام احتیاطی تدابیر اور ایس او پیز پر عمل کرتے ہوئے فاصلے سے اور ماسک لگائے اس جلوس میں شرکت کی اور نوحہ کرتے ہوئے جہانگیر چوک کی جانب بڑھے’۔
بیان میں کہا گیا کہ اس موقع پر انتظامیہ کی مسلم دشمن پالیسیوں کو بروئے کار لاتے ہوئے پولیس اور سی آر پی ایف نے پر امن عزاداروں پر زبردست ٹیرگیس شلنگ کی اور ان پر لاٹھی چارچ کیا جس سے درجنوں لوگ شدید زخمی ہوئے اور دسیوں جوانوں کو گرفتار کر کے بتہ مالو، کوٹھی باغ اور شہید گنج تھانوں میں پابند سلاسل کیا گیا۔
اس میں کہا گیا کہ نماز جمعہ کے فوراً بعد ایک اور جلوس لال چوک سے نائب صدر سید یوسف رضوی کی قیادت میں نکالا گیا جس میں بھی سینکڑوں عزادار ماتم اور نوحہ کرتے ہوئے شامل ہوئے اور ڈل گیٹ کی طرف بڑھے لیکن پولیس نے یہاں پر بھی ظلم و جبر اور فسطائیت کا کھلا مظاہرہ کرتے ہوئے عزاداروں پر شدید تشدد کیا جس سے درجنوں افراد زخمی ہوئے جن میں کچھ نابالغ بچے بھی شامل ہیں۔
بیان میں دعویٰ کیا گیا کہ پولیس بربریت اس حد تک تھی کہ تعزیت پرسی کے لئے جارہی خواتین کی ایک منی بس کو پولیس نے روک کر 30 کے قریب خواتین کو کوٹھی باغ تھانے میں مقید رکھا۔
اس سے پہلے صبح سویرے سے ہی اتحاد المسلمین کے صدر مولانا مسرور عباس انصاری کو گھر میں نظر بند کیا گیا تھا۔
اتحاد المسلمین کے ترجمان نے 8 محرم کے جلوس پر ان کے بقول بلا جواز پابندی اور پرامن عزاداروں پر پولیس کے ذریعے تشدد ڈھانے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے مداخلت فی الدین سے تعبیر کیا ہے اور کہا ہے کہ جموں و کشمیر کی انتظامیہ نے محرم کے متبرک ایام اور کووڈ 19 کے حالات میں عزاداروں کو سہولیات بہم پہنچانے اور ان کے ساتھ تعاون کرنے کے بجائے عزاداری کے جلوس پر پابندی نافذ کر کے اور عزاداروں کو زد و کوب کر کے جس بدترین فعل کا ارتکاب کیا ہے وہ اس سرکار کی فرقہ پرست ذہنیت کی عکاسی کے لئے کافی ہے۔
ترجمان نے کہا کہ انتظامیہ نے اتحاد المسلمین کی قیادت کو نظربند کر کے شاید یہ گمان کیا تھا کہ اس سے جلوس رک جائے گا مگر امام عالی مقام کے شیدائیوں نے تمام تر پابندیوں اور رکاوٹوں کے باوجود جلوس نکال کر یہ ثابت کیا کہ شیعیان کشمیر حسینیت میں کسی بے جا مداخلت کو برداشت نہیں کرسکتے اور امام حسین کی عزاداری کو محدود کرنے کی کسی بھی کوشش کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔
ترجمان نے اپنے بیان میں کہا کہ یہاں کی تمام حکومتوں نے شیعہ مسلک کے ساتھ بدترین امتیازی سلوک انجام دیا ہے کیونکہ ہر سرکار امرناتھ یاترا کے لئے جموں سے گھپا تک سیکورٹی فراہم کرتی ہے اور اس کے لئے کروڑوں کا بجٹ مختص رکھا گیا ہے لیکن جب شیعہ مسلک کے مذہبی امور کی بات آتی ہے تو سرکار مختلف بہانے بناکر ہر سال عزاداروں کو زد و کوب کرتی ہے۔

Related Articles