جوہری مذاکرات میں تعطل کا ذمہ دار امریکا ہے، ایران

تہران،اپریل۔ایرانی حکومت نے جوہری مذاکرات میں تعطل پیدا ہونے کے تناظر میں امریکا پر تنقید کی ہے۔ تہران کا کہنا ہے کہ عالمی طاقتوں کے ساتھ سن 2015 کی جوہری ڈیل کی بحالی میں پیدا تعطل کی ذمہ دار واشنگٹن حکومت ہے۔ایرانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ نے ہفتہ وار پریس کانفرنس میں جوہری ڈیل کی بحالی میں پیدا تعطل کا ذمہ دار امریکا کو ٹھہرایا ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ یہ صورت حال اس وقت پیدا ہوئی جب سن 2015 کی ڈیل کی بحالی کی بات چیت تکمیل کے قریب تھی۔چند روز قبل بھی ایران نے امریکا کی جانب سے عائد کی جانے والی نئی پابندیوں کے تناظر میں امریکا پر تنقید کرتے ہوئے عالمی طاقتوں کے ساتھ ویانا میں سن 2015 کی ڈیل کو بحال کرنے والے مذاکرات میں تعطل کی وجہ امریکی پالیسی کو قرار دیا تھا۔تہران میں ایرانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے پریس کانفرنس میں کہا کہ اس وقت امریکا کو عمل کرتے ہوئے کوئی سیاسی فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے تا کہ سن 2015 کی جوہری ڈیل کو بحال کیا جا سکے۔ سعید خطیب زادہ نے واضح کیا کہ ایران ہمیشہ کے لیے امریکی فیصلے کے انتظار میں بیٹھا نہیں رہے گا۔دوسری جانب جمعرات اکتیس مارچ کو امریکی وزارتِ خارجہ نے کہا تھا کہ جوہری ڈیل کی بحالی میں بعض معمولی نوعیت کے امور ابھی حل طلب ہیں اور ان کو حل کرنے کی ذمہ داری ایران پر ہے کہ وہ کتنی جلدی اس مناسبت سے پیش رفت کرتا ہے۔امریکا کے اکتیس مارچ کے بیان میں ایران کا کہنا ہے کہ حل طلب معاملات کے حوالے سے پیش رفت ایران نے نہیں کرنی بلکہ امریکا کو عملی اقدامات کرنے ہیں۔ تہران کے مطابق جن معاملات پر ابھی مذاکرات میں پیش رفت نہیں ہو سکی ان میں امریکا کی جانب سے غیر ملکی دہشت گرد تنظیموں (FTO) میں سے پاسدارانِ انقلاب ایران (IRGC) کے نام کو ہٹانا ہے۔ اس کے علاوہ ایران عالمی طاقتوں سے ضمانتیں بھی طلب کر رہا ہے کہ مستقبل میں دوبارہ کوئی امریکی صدر جوہری ڈیل سے دستبرداری اختیار کرنے کا فیصلہ نہیں کرے گا۔ایرانی وزارتَ خارجہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ان کا ملک علاقائی حریف سعودی عرب کے ساتھ بھی مذاکرات شروع کرنے پر رضامند ہے، اگر سعودی حکومت بھی دو طرفہ تعلقات کو بہتر کرنے پر تیار ہو جائے۔روس کی جانب سے ایک ڈیمانڈ پر عالمی طاقتیں ایران کے ساتھ سن 2015 کی جوہری ڈیل کی بحالی کے مذاکرات میں تعطل پیدا کرنے پر مجبور ہو گئی ہیں۔ روس نے مطالبہ کیا ہے کہ ماسکو کی ایران کے ساتھ تجارت کو یوکرین پر فوج کشی کے بعد عائد کی جانے والی پابندیوں سے متاثر نہیں ہونا چاہیے۔ اس ڈیمانڈ پر ویانا مذاکرات پٹری سے اتر گئے اور ابھی تک فریقین واپس دوبارہ مذاکرات کی میز پر نہیں بیٹھ پائے۔

 

Related Articles