افغانستان: طالبان کا پوست کی کاشت پر پابندی کا حکم

کابل،اپریل۔افغانسان میں طالبان نے پوست کی کاشت پر پابندی لگانے کا حکم جاری کیا ہے۔ طالبان کے سپریم لیڈر ملا ہیب اللہ اخوندزادہ نے خبردار کیا ہے کہ خلاف ورزی کرنے والے کاشت کاروں کی تمام فصل تلف کردی جائے گی اور ان کے ساتھ شریعت کے مطابق عمل کیا جائے گا۔افغانستان پوست کی پیداوار کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے اور گزشتہ دو دہائیوں کے دوران اس کی پیداوار اور برآمد میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔طالبان کے سپریم لیڈر کی جانب سے جاری کیے گئے ہدایت نامے میں پوست کا استعمال، نقل و حمل، تجارت اور اس سے منسلک ہر قسم کے استعمال جیسے شراب، ہیروئن، ٹیبلیٹ کے ، چرس وغیرہ پر بھی پابندی لگائی گئی ہے۔اس کے ساتھ ہی طالبان نے افغانستان میں منشیات کی فیکٹریوں پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے۔سپریم لیڈر کے اس بیان کی پیروی لازمی قرار دی گئی ہے۔دوسری جانب ماہرین طالبان کے اس اقدام کو خوش آئند قرار دے رہے ہیں۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس سے وابستہ محقق اور افغان امور کے ماہر صدام حسین کہتے ہیں کہ طالبان ملک بھر میں پوست کی فصل کو تلف کرنے کے عمل کو بطور بارگیننگ چپ کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں۔وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ طالبان ملک بھر میں پوست کی فصل کے خاتمے کے ذریعے مختلف مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ان کے بقول طالبان ملک بھر میں پوست کی کاشت ختم کرنے میں کامیابی حاصل کرکے عالمی برادری کو یہ واضح پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ان کی افغانستان پر گرفت مضبوط ہے اور وہ ملک کا انتظام بہترین طریقے سے چلا سکتے ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال پوست کی کاشت سے تقریباً تین ارب ڈالر حاصل کیے گئے۔ البتہ طالبان عالمی برادری کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ وہ صاف شفاف معیشت پر یقین رکھتے ہیں، اس لیے عالمی برادری اس بابت ان کی مدد کرے۔افغانستان میں پوست کی فصل کی تلفی کے حکم نامے کے بعد طالبان حکومت کے قائم مقام ڈپٹی وزیرِاعظم ملاعبدالسالم حنفی نے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ منشیات کے عادی افراد کے علاج معالجے میں تعاون کے ساتھ ساتھ کسانوں کو متبادل ذریعہ معاش فراہم کرنے میں ان کی مدد کریں۔صدام حسین کہتے ہیں کہ طالبان رہنما عالمی سطح پر مختلف ممالک کے رہنماؤں اور سفیروں سے ملاقاتیں کرتے ہیں۔ان ملاقاتوں میں خواتین کی تعلیم اور انسانی حقوق، آزادی اظہارِ رائے، داعش کے خطرے جیسے موضوعات کے علاوہ پوست کی تلفی پر بھی بات چیت ہوتی ہے۔ان کے بقول افغانستان میں پیدا ہونے والی ہیروئن کا 80فی صد پاکستان، ایران اور وسطی ایشیائی ممالک کیذریعے یورپ اور دیگر ممالک کو اسمگل ہوتی ہے۔ اگر طالبان اس کے کنٹرول میں مددگار ثابت ہوتے ہیں تو یہ عمل ان کی حکومت کے تسلیم کرنے میں مدد گار ثابت ہو گا۔افغانستان میں ہلمند، قندھار اور ہرات پوست کی فصل کے حوالے سے زرخیز علاقے تصور کیے جاتے ہیں۔صوبہ ہلمند کے ایک کاشت کار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ انہیں طالبان کے اس اعلان سے مایوسی ہوئی ہے کیوں کہ ان کے کاروبار کا تمام تر دارومدار پوست سے حاصل ہونے والی آمدپر ہی ہوتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اب جب کہ فصل تقریباً تیار ہے تو ایسے حالات میں وہ اپنی فصل کو تباہ نہیں کرسکتے۔کیوں کہ طالبان کے پاس نہ تو متبادل کاروبار مہیا کرنے کا آپشن ہے اور نہ ہی معاوضے کے طور پر اتنی رقم ہے کہ وہ کسانوں کو ادا کرسکیں۔گزشتہ برس اگست میں اقتدار میں آنے کیبعد افغانستان میں پوست کی پیداوار میں اضافے کا خدشہ پیدا ہو گیا تھا۔گزشتہ برس پاکستانی کسٹم حکام نے کہا تھا کہ انہوں نے صرف دسمبر کے پہلے دس دنوں میں ریکارڈ تعداد میں منشیات کی اسمگلنگ کو ناکام بنایا۔کسٹم حکام نے پکڑی جانے والی منشیات کی کل مالیت ساڑھے تین ارب روپے بتائی تھی۔واضح رہے کہ طالبان کی جانب سے پوست کی فصل پر پہلی مرتبہ پابندی نہیں لگائی گئی۔ اس سے قبل طالبان نے اپنے پہلیدورحکومت میں سن 2000 میں بھی پوست کی پیداوار پر مکمل پابندی عائد کی تھی۔طالبان کے اس اقدام کا عالمی برادری نے خیرمقدم کیا تھا۔ماہرین کا کہنا ہے کہ منشیات سے حاصل ہونے والی آمدنی کا براہ راست تعلق دہشت گردی کی کارروائیوں کی سہولت کاری میں ہوتا ہے۔ جس پر کنٹرول کرنا انتہائی ضروری ہوتا ہے۔شدت پسندی کے موضوع پر تحقیق کرنے والے محقق اور پشاور یونیورسٹی میں شعبہ ابلاغ عامہ سے منسلک پروفیسر ڈاکٹر سید عرفان اشرف کا کہنا ہے کہ اس وقت پوری دنیا کو دہشت گردوں سے خطرہ ہے۔وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ وار آن ٹیرر یعنی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ممالک دہشت گردوں سے تو لڑ رہے ہیں تاہم جس چیز کی وجہ سے دہشت گردی کی کارروائیاں فروغ پاتی ہیں اس جانب کوئی توجہ نہیں دیتا ہے۔پروفیسر عرفان اشرف کا مزید کہنا تھا کہ پوری دنیا میں دہشت گردی کی کارروائیوں کی معاونت منشیات کی پیداوار اور اسمگلنگ کے ذریعے سے ہی ہوتی ہے۔ لہٰذابہتر ہے کہ دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے پوست کی فصل کے خاتمے پر کام کیا جائے اور اس حوالے سے طالبان کی مکمل معاونت درکار ہو گی۔طالبان کی جانب سے اگست میں اقتدار حاصل کرنے کے بعد سے ملک کے خراب اقتصادی حالات کے باعث بیروزگاری میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے اپنے ایک بیان میں بتایا تھا کہ افغانستان میں اقتصادی حالات اس قدر خطرناک حد تک پہنچ گئے ہیں کہ غربت کے مارے عوام خوراک کی خاطر اپنے جسمانی اجزا اور بچے تک بیچنے پر مجبور ہیں۔

 

Related Articles