’طالبان بنیادی طور پر لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف نہیں‘

کابل،فروری۔بظاہر طالبان لڑکیوں کو تعیلم کےحصول کے لیے سیکنڈری اسکول جانے کے قابل بنانا چاہتے ہیں۔ کیا اس تعلیم کو مغرب کے نظریہ تعیلم کے معنوں میں لیا جا سکتا ہے؟آئندہ ماہ یعنی مارچ سے افغانستان میں لڑکیوں اور نوجوانوں کو دوبارہ اسکول جانے کی سہولت میسر ہوگی۔ یہ کہنا ہے طالبان حکومت کے ترجمان اور ثقافت اور اطلاعات کے امور کے نائب وزیر ذبیح اللہ مجاہد کا۔ خبروں کے مطابق انہوں نے ایک انٹرویو میں کہا تھا، لڑکیوں اور خواتین کے لیے تعلیم دراصل صلاحیت یا ہماری استطاعت کا مسئلہ ہے۔ ہم اس مسئلے کو آئندہ برس تک حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ اسکول اور یونیورسٹیاں کھل سکیں۔‘‘
تعلیم کی فراہمی میں مشکلات: افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ اسکول کی لڑکیوں کے لیے ہاسٹلز کی شدید کمی ہے۔ طالبان کا نظریہ، بلکہ شرط یہ ہے کہ لڑکے اور لڑکیوں کے کلاس روم الگ الگ ہوں۔ یہی نہیں بلکہ گنجان آباد علاقوں میں لڑکے اور لڑکیوں کے کلاس رومز کو الگ الگ رکھنا بھی طالبان کے لیے کافی نہیں بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے ملک میں لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے اسکول کی عمارتیں ہی الگ الگ ہوں۔
محتاط رجائیت:ایک جرمن تھنک ٹینک کونراڈ آڈیناؤر فاؤنڈیشن‘ کے کابل میں قائم دفتر کی سربراہ ایلینور زینو اس سال کے موسم گرما تک اس دفتر کی سربراہی کرتی رہیں گی تاہم طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے وہ تاشقند میں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ طالبان نے دوبارہ ملک پر قابض ہونے کے بعد شروع سے ہی یہ کہا ہے کہ وہ بنیادی طور پر تعلیم کے خلاف نہیں ہیں، بشمول لڑکیوں کی تعلیم کے۔ ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے زینو کا کہنا تھا کہ طالبان اس پر عملدرآمد بھی کریں گے، کم از کم کسی حد تک۔ تاہم زینو کا اشارہ طالبان کی طرف سے رکھی گئی دو بنیادی شرائط کی طرف ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ایک طرف تو طالبان اسکولوں میں اور عمومی طور پر عوامی زندگی میں بھی صنفی علیحدگی کے قائل ہیں۔ دوسری جانب طالبان کی کڑی نظر تعلیمی نصاب پر ہے جسے ان کے مذہبی نظریات کے حساب سے ہونا چاہیے۔ اس بارے میں سامنے آنے والے بیانات بہت ہی مبہم ہیں۔ زینو کہتی ہیں، یہ نقطہ میرے لیے بہت ہی اہم ہے۔ میرے خیال میں مستقبل میں افغانسان میں لڑکیاں اسکول تو جا سکیں گی تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ وہاں کیا سیکھیں گی۔ کیسا درس حاصل کریں گی؟‘‘
انسانی ہنگامی صورتحال:جنگ و جارحیت کے شکار ملک افغانستان میں سیاسی خلفشار تو اپنی جگہ، گزشتہ سال موسم گرما کی خشک سالی کئی دہائیوں کی بدترین خشک سالی تھی۔ اس سے اس ریاست میں قحط کا سنگین خطرہ پیدا ہو چْکا ہے۔ اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق یہ صورتحال 23 ملین انسانوں کو متاثر کر سکتی ہے۔ چند روز قبل شائع ہونے والے اقوام متحدہ کے دیگر اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ افغانستان میں آٹھ ملین بچے اسکول نہیں جا رہے۔ اس کا شکار صرف لڑکیاں نہیں بلکہ لڑکے بھی ہو رہے ہیں۔ ان پریشان کن حالات کے پیش نظر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرا انتونیو گوٹیریش امریکا سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ افغان حکومت کے منجمد اثاثے بحال کر دیے جائیں اور عالمی بینک ایک اعشاریہ دو بلین ڈالر کی ترقیاتی امداد جاری کرے، جسے ڈونرز یا عطیہ دھندگان نے اب تک افغانستان کی سیاسی اور انسانی حقوق کی صورتحال کے سبب روک رکھا ہے۔
اسلامی سیاق و سباق کا حوالہ‘: کونراڈ آڈیناؤر فاؤنڈیشن‘ کے کابل دفتر کی سربراہ ایلینور زینو افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے چند چھوٹے اور بنیادی اقدامات کی وکالت کرتی ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ افغانستان کی آبادی کا ایک بڑا حصہ قدامت پسند ہے۔ قدامت پسند صوبوں میں 12 سے 14 سال کی عمر میں لڑکیوں کو اسکول سے نکال لینے کا رواج عام ہے۔ ان علاقوں کے باشندے انہیں عوامی یا پبلک مقامات پر جانے کی اجازت نہیں دینا چاہتے۔ ایک خاص سماجی دباؤ کے تحت۔‘‘خواتین اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے ایلینور زینو کی ایک اہم تجویز ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کی کونراڈ آڈیناؤر فاؤنڈیشن‘ نے بھی مقامی طور پر اس خیال کی پیروی کی، یعنی طالبان کے کٹر نظریات کا جواب اسلامی دلائل میں ہی تلاش کیا جائے۔ نیز اسلامی نظریے کی تشریح پر طالبان کی اجارہ داری کی اجازت نہیں دی جانا چاہیے۔ وہ کہتی ہیں، افغانستان میں انسانی اور خواتین کے حقوق کا تحفظ صرف اسی صورت میں ممکن ہو سکتا ہے جب طالبان کو اسلامی طریقے سے، جائز و ناجائز قرار دیا جانا چاہیے۔ اسلامی نظریات کی تشریح کے دائرہ کار کو بہتر اور وسیع تر بنایا جائے۔‘‘زینو کہتی ہیں پچھلے 20 برسوں میں اس طریقہ کار پر شاید ہی عمل کیا گیا ہو۔ ماضی کی کوششوں میں ناکامی سے ملک کی صورتحال کی بنیادی وجوہات پر بات چیت کر کے صحیح نتیجہ اخذ کرنا زیادہ ضروری ہے۔ وہ کہتی ہیں، طالبان تک پہنچنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ وہ مشکل سے ہی اپنے آپ کو سیاسی یا معاشی طور پر دباؤ میں آنے دیتے ہیں۔ اسی لیے ان سے بات چیت کے لیے دیگر طریقوں کو بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔‘‘

Related Articles