ماکروں – رئیسی بات چیت: ’ایرانی جوہری مذاکرات میں تیزی کی ضرورت ہے‘

تہران/پیرس،جنوری۔فرانسیسی صدر ایمانویل ماکروں نے اپنے ایرانی ہم منصب ابراہیم رئیسی سے ٹیلی فون پر بات چیت کے دوران ویانا میں جاری ایرانی جوہری مذاکرات اور علاقائی مسائل پر تبادلہ خیال کیا۔ ماکروں نے مذاکراتی عمل میں تیزی پر زور دیا۔ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے ساتھ فون پر بات چیت کے دوران فرانسیسی صدر ایمانویل ماکروں نے ایرانی جوہری مذاکرات کی پیش رفت میں ‘تیز روی کی ضرورت‘ پر زور دیا ہے۔ دونوں رہنماؤں کے مابین ہفتے کے روز بات چیت ہوئی۔
ماکروں نے کیا کہا؟:فرانس کے صدارتی دفتر کے جاری کردہ بیان کے مطابق ماکروں نے اپنے ایرانی ہم منصب سے ویانا میں کئی ماہ سے جاری مذاکرات میں تیزی برتنے کی ضرورت پر اصرار کیا تاکہ ‘اس تناظر میں جلد سے جلد ٹھوس پیش رفت حاصل کی جاسکے۔‘بیان کے مطابق ماکروں نے کہا، ”ایران کی جوہری سرگرمیوں سے متعلق سفارتی حل ابھی بھی ممکن ہے لیکن اس کے لیے کوششوں کو تیز کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘ماکروں نے اپنے ایرانی ہم منصب کے ساتھ ‘طویل تبادلہ خیال‘ کے دوران، ‘تہران کی طرف سے تعمیری طرز عمل کا مظاہرہ کرنے اور اپنی ذمہ داریوں کو مکمل طور پر پورا کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔‘
رئیسی کا مؤقف:ایرانی خبر رساں ایجنسیوں کے مطابق دونوں رہنماؤں کی گفتگو میں ”دوطرفہ تعلقات کو مضبوط بنانے‘‘ اور ”ایران پر عائد پابندیوں کے خاتمے‘‘ پر بھی گفتگو ہوئی۔اطلاعات کے مطابق صدر ابراہیم رئیسی نے تہران پر عائد پابندیوں کے خاتمے اور اس کی ضمانتوں کی تصدیق پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ‘ایران پر امریکی پابندیوں کا دباؤ بے اثر رہا ہے۔‘اطلاعات کے مطابق دونوں رہنماؤں نے علاقائی صورتحال پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے لبنان کی سیاسی صورتحال اور یمن کی جنگ کے موضوعات پر بھی بات چیت کی۔
ایرانی جوہری معاہدے کی بحالی:برطانیہ، فرانس، جرمنی، روس، چین اور یورپی یونین اس وقت سن 2015 میں ایران کے ساتھ طے ہونے والے معاہدے پر ویانا میں مذاکرات جاری رکھے ہوئے ہیں۔ تقریباً دو ماہ قبل یہ مذاکرات دوبارہ شروع ہوئے تھے، تاہم ابھی تک کسی نتیجے پر نہیں پہنچا جا سکا ہے۔ ویانا میں موجود مغربی سفارتکاروں کا کہنا ہے کہ مذاکرات بہت سست رفتار سے آگے بڑھ رہے ہیں۔امریکا بھی ان مذاکرات میں بالواسطہ طور پر شامل ہے۔ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سن 2018 میں ایران کے ساتھ جوہری معاہدے سے امریکا کو یکطرفہ طور پر نکال لیا تھا، جس سے واشنگٹن اور تہران کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہو گیا تھا۔صدر جو بائیڈن نے سال 2021 کے آغاز میں عہدہ سنبھالنے کے بعد اس معاہدے میں دوبارہ شامل ہونے کی بات کہی لیکن وہ ایران پر عائد ایسی بیشتر پابندیاں ختم کرنے کے حق میں نہیں جو ایرانی معیشت کو کمزور کر رہی ہیں۔

Related Articles