ایک مہاجر کی بیلاروس کی سرحد پر بارہ سال سے بچھڑے ہوئے والدین کی تلاش
ویانا،نومبر۔اپنے ملک سے انتہا پسندوں کے ظلم سے بھاگ کر یورپ کا رخ کرنے والے پناہ گزینوں کو کیا سننے کو ملتا ہے؟ وہ کس طرح اپنی اور اپنے خاندان والوں کی بقا کی جنگ لڑتے ہیں، اس کا کچھ اندازہ ایک شامی کرد باشندے کی اس کہانی سے ہوتا ہے۔آسٹریا میں بطور مہاجر تسلیم شدہ ایک شامی باشندہ پولینڈ سے متصل بیلاروس کی سرحد پر اپنے ماں باپ کی راہ تک رہا ہے۔ اس نے اپنی المناک کہانی ڈوئچے ویلے کو سنائی۔سینکڑوں تارکین وطن بیلا روس، لِتھوینیا اور پولینڈ کے مابین سرحدی علاقوں میں سر گرداں پھر رہے ہیں۔ ایک شامی مہاجر پولینڈ کی سرحد پر اپنے والدین کا بے چینی سے انتظار کر رہا ہے۔ 33 سالہ ہاول روڑاوا نے گزشتہ بارہ برسوں سے اپنے والدین کو نہیں دیکھا۔ کْرد نڑاد یہ شامی باشندہ 2009 ء سے آسٹریا میں زندگی بسر کر رہا ہے۔ وہاں اس نے اپنا ایک ہیئر ڈریسر سلون قائم کر رکھا تھا۔ اْس نے خود کو کسی حد تک مستحکم کر لیا تھا تاہم اب اس کی ساری محنت کے ناکام ہونے کا خطرہ ہے۔ ہاول ایک ایک کر کے اپنے گاہکوں کو کھو رہا ہے، اور اس پر واجب الادا قرضوں کا بوجھ بڑھتا جا رہا ہے۔ اب اْس کے لیے پولینڈ کے علاوہ کہیں بھی رہنا مشکل ہو چْکا ہے۔ وہ ممکنہ حد تک اپنے والدین سے قریب رہنا چاہتا ہے۔’انسان اتنی ذلت و حقارت کیسے برداشت کر سکتا ہے‘اس کی ماں کی عمر 55 اور باپ کی عمر 60 برس ہے۔ ہاول کے بقول اس کے والدین کئی دنوں سے پولینڈ اوربیلاروس کے جنگلاتی سرحدی علاقے میں پھنسے ہوئے ہیں، بغیر کسی غذا اور ادویات کی فراہمی کے۔ جب بھی دونوں کو اپنے موبائل فون کو چارج کرنے کا موقع ملتا ہے وہ کر لیتے ہیں اور اپنے بیٹے کا حال چال معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہاول روڑاوا دو بار ایک لوکلائزیشن ایپ‘ کی مدد سے اپنے والدین کو تلاش کرنے میں کامیاب ہوا مگر اب کافی دنوں سے ان کا کوئی اتا پتا نہیں مل رہا۔ بیلاروس آنا ایک غلط فیصلہ تھا۔‘‘ ہاول روڑاوا خود سے باتیں کرتے ہوئے اپنے اوپر تنقید کر رہا ہے۔
ماں باپ سے ملنے کی تڑپ:ہاول روڑاوا نے یبلا روس کی سرحد سے کافی فاصلے پر ایک پولش ہوٹل کا ایک کمرا بْک کروایا۔ ڈوئچے ویلے کیساتھ بات چیت کے دوران اْس کا فون اس کے نزدیک ہی پڑا تھا اور اس پر مسلسل گھنٹیاں بجتی رہیں۔ وہ اپنی گفتگو میں خلل کا باعث بننے والی فون کی گھنٹیوں کے بارے میں معذرت چاہتے ہوئے کہتا ہے کہ کبھی کھی فون اْٹھا لینا ضروری ہے شاید اْسے کہیں سے اپنے والدین کی کوئی خبر مل جائے۔ اْسے معلوم ہے کہ اْس کے اور اْس کے والدین کے درمیان 30 کلومیٹر سے بھی کم کا فاصلہ ہے مگر وہ تب بھی وہ وقتی طور پر ایک دوسرے کی رسائی میں نہیں۔ ہاول کہتا ہے، میرے والدین شام سے بیلاروس پیسے کی خاطر نہیں آئے وہ جنگ کی وجہ سے وہاں سے بھاگے ہیں۔‘‘ ہاول کی دو بہنیں کئی سالوں سے جرمنی میں رہ رہی ہیں اور وہ خود اور اْس کا ایک اور بھائی آسٹریا میں ہیں۔ میری ماں تڑپ رہی ہے، اْس نے 12 برسوں سے اپنے بچوں کو نہیں دیکھا۔ میری ماں اور باپ آسٹریا کی زندگی کے عادی نہیں ہو سکتے، وہ بالکل ہی مختلف ذہنیت کے حامل ہیں۔ ہماری فیملی کی اس وقت جو صورتحال ہے اْس کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ ہمارے ماں باپ ہمیں دیکھنا چاہتے ہیں۔‘‘ ہاول کہتا ہے۔
مسلمانوں کا المیہ:ہاول کے مطابق اْس کے والدین نے شام میں ایک ٹرویلنگ ایجنسی سے منسک کے لیے ٹکٹ خریدے تھے۔ ایسی ایجنسیاں شام کے ہر کونے مں موجود ہیں اور سفری پیکیجز کی پیشکش کرتی رہتی ہیں اور اْسے اب تک اس کا بہت اچھا تجربہ ہوتا رہا۔ میرے ذہن میں تو صرف ایک ہی خیال تھا کہ میں اپنے ماں باپ کو دوبارہ دیکھ سکوں گا۔‘‘ ہاول اپنے ملک سے اس لیے بھاگا تھا کہ اْسے فوجی خدمات ادا کرنے سے بچنے کے جرم میں سزائے موت کا سامنا تھا۔ وہ کہتا ہے کہ شام کی جنگ اْس کی جنگ نہیں۔ اْس کے بقول، اگر اب میں آئی ایس آئی ایس یا داعش کے ہاتھوں چڑھ گیا تو وہ مجھے جان سے مار دیں گے کیونکہ میں ایک کْرد ہوں۔ ہم بنیاد پرستوں سے اس لیے بھاگتے ہیں کیونکہ وہ ہمیں جان سے مارنا چاہتے ہیں لیکن جب ہم اپنے ملک سے فرار ہو کر یورپی سرحدوں میں داخل ہوتے ہیں تو ہمیں یہ سننے کو ملتا ہے کہ ہم مسلمان ہیں۔ کیا آپ کو اندازہ ہے کہ یہ کتنی مشکل صورتحال ہے۔ آپ اپنے ملک میں انتہا پسندوں کے خوف سے فرار ہو کر کسی محفوظ جگہ کی تلاش میں وہاں پہنچتے ہیں جہاں آپ کو انتہا پسندوں کا خوف نہیں ہوتا مگر وہاں پہنچنے پر آپ کو مسلمان ہونے کی وجہ سے مسترد کر دیا جاتا ہے۔‘‘
سرحدوں کی صورتحال:پناہ کے متلاشی افراد کی امداد کے لیے سرگرم ایک کار کن کے بقول، پناہ کے متلاشی افراد جب یورپی‘ سرحد پر پہنچتے ہیں تو انہیں مزید بدتر صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے، یہ انفرادی انسانوں کے مقدر کی ٹھوکروں کی کہانیاں ہیں۔ یہ پناہ گزینوں کے بہاؤ کا معاملہ نہیں۔ یہاں پہنچنے پر کوئی ہم سے مالی امداد کا نہیں پوچھتا۔ سب بس ایک ہی گزارش کرتے ہیں، اپنی زندگی کی سلامتی کے لیے کسی محفوظ ملک تک رسائی کی۔‘‘ اس امر کی تصدیق شامی کرد شہری ہاول روڑاوا نے بھی ڈوئچے ویلے کیساتھ اپنی گفتگو میں بارہا کی۔ اْس نے بتایا کہ اْس کے والدین کسی مالی مدد پر انحصار نہیں کرتے وہ پیسے والے ہیں۔ وہ کہتا ہے، کوئی غریب انسان 16 ہزار سے 20 ہزار یورو کا ٹکٹ نہیں خرید سکتا۔ مجھے کوئی ایک پولش باشندہ یا دیگر کسی یورپی ملک کا باشندہ دکھا دیں جو اتنا مہنگا ٹکٹ خرید سکتا ہو۔ یہ انسان جو سرحدی علاقوں تک پہنچتے ہیں، ان کے پاس اکثر پیسے ہوتے ہیں لیکن یہ جنگ سے بھاگ کر آتے ہیں کیونکہ جنگ میں کوئی محفوظ نہیں ہوتا۔‘‘
بارہ برس بعد ماں بیٹے کی ملاقات:پولش سرحدی سکیورٹی کے ادارے سے تعلق رکھنے والے گارڈز اس امر کی تصدیق کرتے ہیں کہ انہیں بھی ہاول روڑاوا جیسے کیسز کا علم ہے۔ ایسے افراد جن کے خاندان کے اراکین مختلف یورپی ممالک میں محفوظ رہائش حاصل کر چْکے ہیں تاہم وہ پولینڈ کے سرحدی علاقے تک آتے ہیں تاکہ وہ پناہ کے متلاشی اپنے رشتہ داروں کو یہاں سے لے جا سکیں۔ لیکن اس سارے معاملے کا ناجائز فائدہ ایسے جرائم پیشہ افراد اْٹھا رہے ہیں جو فی کس کئی کئی ہزار یورو کے عوض ان پناہ کے متلاشی افراد کو یورپ کے کسی علاقے تک پہنچانے کا کام کرتے ہیں۔ ہاول روڑاوا سے جب پوچھا گیا کہ وہ کب تک اس غیر یقینی صورتحال میں پولش سرحد پر اپنے والدین کا انتظار کرتا رہے گا؟ اْس کا کہنا تھا، پولینڈ اور بیلاروس کے مابین یقیناً شدید کشیدگی پائی جاتی ہے تاہم جنگل میں پڑاؤ ڈالے ہوئے انسانوں کا اس میں کیا قصور ہے۔‘‘آخر کار ہاول روڑاوا کو اْس کے فون پر ایک پیغام ملتا ہے جس سے اْسے پتا چلتا ہے کہ اْس کی ماں مختصر وقت کے لیے پولینڈ کے ایک ہسپتال میں داخل تھی۔ اس کی صحت تشویشناک ہے۔ یہ خبر ہاول روڑاوا کے لیے خوشی اور دکھ دونوں کا سبب بنی کیونکہ وہ 12 سال بعد اپنی ماں کو ملا، محض 15 منٹ کے لیے اور اْس نے دیکھا کہ اْس کی ماں کی حالت اچھی نہیں۔