چین کے اسلحے کی فروخت میں کمی کیوں آ رہی ہے؟

بیجنگ،اکتوبر۔اسلحے کی برآمدات کی عالمی منڈی میں چین کا حصہ کم ہو رہا ہے اور اس کے خریداروں پر دباؤ میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔مبصرین کے نزدیک اس کے اسباب یہ ہیں کہ چین کے تیار کیے گئے زیادہ تر ہتھیار جنگوں میں آزمودہ نہیں ہیں اور ان کے خریداروں کو اس کی سیاسی قیمت بھی ادا کرنا پڑتی ہے۔وائس آف امریکہ کے لیے رالف جیننگ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2016 سے 2020 کے دوران اس سے پہلے کے پانچ برسوں کے مقابلے میں دنیا کی دوسری بڑی معیشت چین کے اسلحے کی فروخت میں 7.8 فی صد کمی آئی ہے۔رپورٹ میں ’اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ‘ (سپری) کے جاری کردہ اعداد و شمار کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ اسلحے اور جنگی ساز و سامان کی عالمی برآمدات میں چین کا حصہ 5.6 فی صد سے کم ہو کر 5.2 فی صد ہو گیا ہے۔سنگا پور کے ایس راجا رتنام اسکول آف انٹرنیشنل اسٹڈیز سے وابستہ سینئر تجزیہ کار رچرڈ بٹزنگر کا کہنا ہے کہ عام طور چین سالانہ تین سے چار ارب ڈالر کے ہتھیار برآمد کرتا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ چین کے ہتھیاروں کی قیمتیں دیگر برآمدات کے مقابلے میں کم ہیں لیکن ان کی بعد از فروخت فراہم کی جانے والی سروسز کی لاگت زیادہ ہوتی ہے۔سنگاپور کی ننیانگ ٹیکنالوجیکل یونیورسٹی میں میری ٹائم سیکیورٹی کے شعبے سے وابستہ محقق کولن کو کا کہنا ہے کہ چین کی آفٹر سیل سپورٹ ان کی اصل قیمت کے مقابلے میں زیادہ مہنگی پڑتی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ سیاسی کشیدگی کی وجہ سے بھی کئی غیر ملکی خریدار چین سے اسلحہ نہیں خریدتے۔ ان میں خاص طور پر وہ ممالک شامل ہیں جن کے دفاع میں دیگر ممالک کے تیار کردہ سسٹمز ناگزیر ہیں۔انہوں نے کہا چین کے زیادہ تر ہتھیار جنگ میں آزمائے نہیں گئے ہیں۔ اس لیے بعض خریداروں کے لیے یہ سوال بھی اہم ہے کہ جب ان ہتھیاروں کی ضرورت پڑے گی تو ان کی کارکردگی کیسی ہو گی۔ان کا کہنا ہے کہ امریکی اسلحے پر اس لیے کئی درآمد کنندگان کو اعتماد ہے کہ میدانِ جنگ میں اس کی کارکردگی آزمائی جا چکی ہے۔کولن کو کا کہنا ہے کہ ایک مسئلہ ’میڈ ان چائنا‘ کے لیبل میں بھی ہے جسے زیادہ مثبت انداز میں نہیں دیکھا جاتا۔انہوں ںے کہا کہ ’میڈ ان چائنا‘ کا لیبل ایک ایسا ’کلنک‘ بن چکا ہے جس کے اثرات جنگی ساز و سامان سے بھی بالاتر ہیں۔اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (سپری) کی 20-2019 کی رپورٹ کے مطابق چین دنیا میں اسلحے کا چوتھا بڑا برآمد کنندہ ہے۔ اسلحہ کی برآمدات میں امریکہ پہلے، روس دوسرے اور فرانس تیسرے نمبر پر ہے۔رپورٹ میں دیے گئے 2016 سے 2020 تک کے اعداد و شمار کے مطابق چینی اسلحے کی ہتھیاروں کی 60 فی صد برآمدات الجیریا، بنگلہ دیش اور پاکستان کو کی گئیں۔رپورٹ مین بتایا گیا ہے کہ چین کی اسلحے کی کل برآمدات میں سے 38 فی صد کا خریدار پاکستان ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ چین نے ڈرونز اور خاص طور پر شہری استعمال کے لیے ڈرون تیار کرنے کی تیکنیک روس سے سیکھی ہیں اور اس میں مکمل مہارت حاصل کر لی ہے۔ کولن کو کا کہنا ہے کہ اب چین کے پاس بحری جہازوں کی تیاری کے ’مواقع‘ ہیں۔مبصرین کے مطابق غریب ممالک اور ایسے ملک جن کے امریکہ سے سیاسی روابط اچھے نہیں وہ زیادہ تر اسلحے کے لیے چین سے رجوع کرتے ہیں۔اسی وجہ سے گزشتہ دو دہائیوں میں چین کے خریدار بڑھے ہیں۔ تاہم ان کی بڑی تعداد افریقہ، مشرقِ وسطی، جنوبی ایشیا اور لاطینی امریکہ سے تعلق رکھتی ہے۔امریکہ کی ریاست ہوائی میں محکمۂ دفاع کے سیکیورٹی کے انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ پروفیسر الیگزینڈر وونگ کا کہنا ہے کہ چین دنیا بھر میں اپنے خریداروں کی تلاش جاری رکھتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی چین نے ٹیکنالوجی میں بھی کافی ترقی کر لی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ چین تبدیلیوں اور جدتوں کے ساتھ کم قیمت پر اسلحہ فراہم کررہا ہے جس کی وجہ سے کئی ممالک چینی اسلحے کی طرف راغب ہورہے ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ چین سے ہتھیار خریدنے والوں کی شکایات کم ہی سامنے آتی ہیں۔ کیوں کہ یہ ساز و سامان خریدنے والے کوئی جنگ نہیں لڑ رہے ہیں۔ لیکن اسلحے کی فروخت کے بعد دباؤ کے آثار نظر آنا شروع ہوتے ہیں۔دو سال قبل ایوی ایشن کے شعبے کی خبریں دینے والی ویب سائٹس نے رپورٹ کیا کہ اردن کی فضائیہ اپنے چھ چینی ساختہ سی ایچ 4 بی ڈرون فروخت کر رہی ہے۔’اورٹ ڈیفنس‘ نامی ویب سائٹ کا کہنا تھا کہ ان ڈرونز کی فروخت کے لیے جاری کردہ بیان سے اندازہ ہوتا ہے کہ اردن ان چینی ڈرونز کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہے۔تھائی لینڈ نے رواں برس ایک کروڑ 17 لاکھ ڈالر سے زائد مالیت کے تین چینی ساختہ ٹینک خریدے تھے۔حزبِ اختلاف نے اس سودے پر شدید تنقید کی تھی اور یہ سوال اٹھایا تھا کہ کرونا کی ویکسین پر ٹینکوں کی خریداری کو کیوں ترجیح دی گئی؟ دونوں ممالک کے دفاعی تعاون میں 2016 سے بہت زیادہ اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ملائیشیا نے 2016 میں چین سے ساحلی نگرانی کرنے والی کشتیاں خریدنے کا معاہدہ کیا تھا۔ ملائیشیا کو اس خریداری میں بچت بھی ہوئی اور اس معاہدے کے مطابق دو ایسی کشتیاں فراہم بھی کر دی گئی ہیں۔لٹرل مشن شپس کہلانے والی یہ چھوٹی کشتیاں ساحلی پٹی پر بعض مرتبہ بڑے ہدف سے مقابلے کے لیے بھی استعمال ہوتی ہیں۔ اس میں اسٹیلتھ یعنی حریف کے ریڈار سسٹم سے اوجھل ہونے کی ٹیکنالوجی بھی موجود ہوتی ہے۔جنوبی بحیرۂ چین میں ملائیشیا اور چین کے درمیان سمندری حدود کا تنازع بھی پایا جاتا ہے۔ رواں ہفتے ملائیشیا نے برانو کے نزدیک متنازع سمندری حدود میں اپنے خصوصی اکنامک زون میں چینی کشتیوں اور سروے شپ آنے پر شدید احتجاج بھی کیا تھا۔اس بارے میں ملائیشیا کے انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹجک اینڈ انٹر نیشنل اسٹڈیز سے منسلک سینئر تجریہ کار شریمان لاکمین کا کہنا ہے کہ ملائیشیا کو دوسروں پر انحصار کا خطرہ مول نہیں لینا چاہیے۔ان کے مطابق خاص طور پر یہ بات سوچنے کی ضرورت ہے کہ جس ملک سے سرحدی تنازعات ہوئے اسی سے جنگی ساز و سامان کی خریداری کیا اثرات مرتب کر سکتی ہے۔دفاعی تجزیہ کار برٹزنگر کا کہنا ہے کہ چین کے تیار کردہ ہتھیار ’مناسب‘ ہوتے ہیں لیکن ان کا موازنہ امریکہ میں تیار کیے گئے ہتھیاروں سے نہیں کیا جا سکتا۔چین کے ریاستی میڈیا میں بھی بعض رکاوٹوں کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔ سرکاری خبر رساں ادارے ’شنہوا‘ نے 2006 میں رپورٹ کیا تھا کہ چین عالمی سطح پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات کے باوجود بین الاقوامی ضوابط کی ’معقول، قانونی اور ناقابلِ احتساب‘ پابندی کر رہا ہے۔برٹزنگر کا کہنا ہے کہ ریاستی میڈیا کے مطابق چین نے چینگدو جے 10 طیارے بنائے ہیں جنہیں رواں ہفتے ہونے والے ایک ایئر شو میں پیش کیا جائے گا۔ لیکن یہ طیارے بیرونِ ملک فروخت نہیں کیے جا سکیں گے۔گزشتہ ہفتے چائنا ڈیلی نے بتایا تھا کہا اب چین اپنے ’طاقت ور ترین ہتھیاروں‘ میں سے ایک سپر سانک میزائل سسٹم کی حامل آبدوزوں کی برآمد شروع کرنے والا ہے۔

 

Related Articles