صحابہ کرام کی مقدس جماعت،فضائل و مناقب
از: مولانا عطاء الرحمن ندوی
بلہرہ بارہ بنکی
حضرات صحابہ کرام کی مقدس جماعت کمالات نبوت کی آئینہ دار، اوصاف رسالت کی مظہر اتم، دین اسلام کے ترجمان وعلم بردار، قرآن عظیم کے محافظ وپاسبان، سنت نبوی کے عامل ومبلغ، بلند سیرت وکردار کے حامل وداعی او رامت مسلمہ کے محسن ومعمار ہیں،ان کی قوت ایمانی،جاں نثاری و جاں سپاری،ثابت قدمی و بہادری اور خدا اور رسول سے ان کی محبت بے مثال ہے حضورؐ کی عادت کریمہ،خصائل حمیدہ،شمائل فاضلہ، اخلاق عظیمہ اور شریعت کے تمام مسائل و دلائل اور حقائق و آداب کی علما اور عملا سچی ترجمان ہے ان کی سیرت پوری امت مسلمہ کے قابل تقلید،نمونہ عمل اور نجات کا پیش خیمہ ہے اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم ان کی اتباع کریں ان کی اتباع ہی امت مسلمہ کو گمراہی و ضلالت سے نجات دلاسکتی ہے(صحابی کی تعریف)
شریعت اسلامیہ میں صحابہ کرام ان برگزیدہ لوگوں کو کہا جاتا ہے جنہوں نے ایمان کی حالت میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی ہو، آپ کی صحبت سے مستفید ہوئے ہوں اور ایمان ہی کی حالت میں دنیا سے رخصت ہوئے ہوں۔ یہ سب کے سب جنتی ہیں ، سب مخلص مومن ہیں ، تمام معاملات بالخصوص شریعت کو امت تک پہنچانے میں قابل اعتبار و قابل اعتماد ہیں ، اللہ تعالیٰ ان سب سے راضی اور وہ سب کے سب اللہ تعالیٰ سے راضی ہیں ، دنیا میں اللہ نے ان کے جنتی ہونے کی بشارت قرآن کریم میں ذکر فرما دی ہے۔ شانِ صحابہ کے بارے میں قرآنی آیات، جو مہاجرین اور انصار سابق اور مقدم ہیں اور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وہ سب اس سے راضی ہوئے اور اللہ نے ان کے لئے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے یہ بڑی کامیابی ہے۔( سوری توبہ)
اللہ تعالی نے فرمایا: ترجمہ: محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں کافروں پر سخت ہیں آپس میں رحمدل ہیں، تو انہیں دیکھے گا رکوع اور سجدے کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل اور رضامندی کی جستجو میں ہیں ( سورہ فتح )اور اللہ تعالی کا فرمان ہے: تم میں سے جن لوگوں نے فتح سے پہلے فی سبیل اللہ دیا ہے اور قتال کیا ہے وہ (دوسروں کے) برابر نہیں بلکہ ان کے بہت بڑے درجے ہیں جنہوں نے فتح کے بعد خیراتیں دیں اور جہاد کیے، ہاں بھلائی کا وعدہ تو اللہ تعالیٰ کا ان سب سے ہے جو کچھ تم کر رہے ہو اس سے اللہ خبردار ہے سورہ حدید، عظمتِ صحابہ آحادیثِ نبویؐ کے آئینہ میں: حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نیاپنے کسی بھی صحابی کو گالی دینے، بْرا کہنے و سمجھنے سے سخت منع فرمایا ہے،اور یہ بھی فرمایا کہ کوئی بھی مسلمان اپنا سارا مال خرچ کرکے بھی میرے(رسول اکرمؐکے)کسی بھی سے صحابی کے مقام کو نہیں پہنچ سکتا، حدیث یہ ہے:میرے صحابہ کو گالی یا بْرا نہ کہنا، (جان لو کہ )تم میں سے کوئی بھی اْحد پہاڑ کے برابر سونابھی(صدقہ و خیرات میں ) خرچ کرلے تووہ اْن(صحابہ)میں سے کسی بھی ایک کے مکمل یا آدھے مُد (آدھا کلو یا ایک پاؤاناج کے خرچ کرنے کی فضیلت ومقام) تک بھی نہیں پہنچ سکتا (بخاری و مسلم)۔
دوسری حدیث عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ؐ نے فرمایا: سب سے بہترین لوگ میرے زمانے کے ہیں، پھر وہ لوگ جو ان کے بعد ہیں، پھر وہ لوگ جو ان کے بعد ہیں۔ حضور اکرم نے یہ بات بھی بیان فرمادی کہ انصار سے محبت کرنا سچے ایمان کی نشانی ہے ، اور ان سے بغض رکھنا نفاق کی نشانی ہے،حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ جسے دین کی راہ اختیار کرنی ہے تو اْن کی راہ اختیار کرے جو اس دنیا سے گزر چکے ہیں اور وہ حضرت محمدؐکے صحابہ ہیں ، جو اس امت کا افضل ترین طبقہ ہے، قلوب ان کے پاک تھے، علم ان کا گہرا تھا، تکلیف اور تصنع ان میں کالعدم تھا، اللہ جل شانہ نے انہیں اپنے نبی کریمؐ کی صحبت اور دین کی اشاعت کے لیے چنا تھا، اس لیے ان کی فضیلت اور برگزید گی کو پہچانو، ان کے نقش قدم پر چلو اور طاقت بھر ان کے اخلاق اور ان کی سیرتوں کو مضبوط پکڑو، اس لیے کہ وہی ہدایت کے راستے پر تھے۔
حضرت ابن مسعود رؓ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمام بندوں کے دلوں پر پہلی دفعہ نگاہ ڈالی تو ان میں سے محمد ؐ کو پسند فرمایا او رانہیں اپنا رسول بنا کر بھیجا اور ان کو اپنا خاص علم عطا فرمایا، پھر دوبارہ لوگوں کے دلوں پر نگاہ ڈالی اور آپ کے لیے صحابۂ کرامؓ کو چنا او ران کو اپنے دین کا مدد گار او راپنے نبی صلیؐ کی ذمہ داری کا اٹھانے والا بنایا، لہٰذا جس چیز کو مؤمن ( یعنی صحابۂ کرامؓ ) اچھا سمجھیں گے وہ چیز اللہ کے ہاں بھی اچھی ہو گی او رجس چیز کو بُرا سمجھیں گے ، وہ چیز اللہ کے ہاں بھی برْی ہو گی،صحابہ معیار حق ہونے کیساتھ سب سے مقدس طبقہ ہیں : حضرات صحابہ کرام آسمان ہدایت کے درخشندہ و تابندہ ستارے ہیں یہ وہ مبارک جماعت ہے کہ جسکو اللہ جل شانہ نے اپنے نبی کریمؐ اور پیارے رسول کی مصاحبت کے لیے منتخب کیا،ان کی زندگیاں معیار حق ہیں کیونکہ یہ وہ مقدس جماعت ہے جس نے براہ راست مشکوت نبوت سے استفادہ کیا اور اس پر آفتاب نبوّت کی شعاعیں بلا کسی حائل و حجاب کے بلاواسطہ پڑیں انمیں جو ایمان کی حرارت اور نورانی کیفیت تھی وہ بعد والوں کو میسر آنا ممکن نہ تھی اس لیے قرآن حکیم نے من حیث الجماعت اگر کسی پوری کی پوری جماعت کی تقدیس کی ہے تو وہ حضرات صحابہ کرام ؓ ہی کی جماعت ہے اس لیے کی اس کو مجموعی طور پر راضی وہ مرضی اور راشد و مرشد نے فرمایا ہے اسی لئے استمرار کے ساتھ امت مسلمہ کا یہ اجماعی عقیدہ ہے کہ حضرات صحابہ کرام سارے کے سارے عدول اور متقن ہیں یعنی دیانتدار،عدل اور انصاف کرنے والے ،حق پر ڈٹ جانے والے اور خواہشات کی طرف مائل نہ ہونے والے ہیں،صحابہ کرام کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا یہ اعلان ہے کہ اللہ ان سے راضی ہے اور وہ اللہ سے راضی ہیں اور ان کا اجماع شرعی حجت ہے،ان کا منکر دائرہ اسلام سے خارج ہے،صحابہ کرام دین کی نشر و اشاعت اور دعوت تبلیغ میں ہراول دستہ کی مانند ہے: صحابہ کرام کا طبقہ وہ عظیم طبقہ ہے جو دین کی نشر و اشاعت اور دعوت تبلیغ میں ہراول دستہ کی مانند ہے، انہوں نے بڑی قربانیوں اور جدوجہد سے دین حاصل کرکے ہم لوگوں تک پہنچایا ہی نہیں بلکہ اسکا حق بھی ادا کردیا،حضورؐکے بعد دنیا کا سب سے بہترین اور اللہ کا سب سے زیادہ محبوب و مقرب طبقہ صحابہ کرام ؓ کا طبقہ ہے،یہی وہ مقدس جماعت ہے جنہوں نے دین اسلام کی بقا اور اس کی اشاعت کیلئے سب کچھ قربان کردیا اور ایسی قربانی پیش کی جسکی نظیر قیامت تک نہی مل سکتی۔صحابہ کرام دین کی بنیاد ہیں: صحابہ کرام ؓ دین کی بنیاد ہیں جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پر ایمان لائے اور رسول کریم کی نصرت و حمایت کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنی زندگیاں اللہ کے کلمہ کو بلند کرنے اور اس کے دین کو قائم کرنے کے لیے وقف کردی،اگر رسول اللہ ؐسے صحابہ کرامؓؓ کو الگ رکھ کر ان کوعام انسانوں کی طرح خاطی و عاصی تصور کرکے غیر معتبر قرار دیا جائے گا تو اسلام کی پوری عمارت ہی منہدم ہوجائے گی نہ رسول اللہؐ کی رسالت معتبر رہے گی نہ قرآن اور اس کی تفسیر اور حدیث کا اعتبار باقی رہے گا کیونکہ اللہ کے رسول اللہؐ نے جو کچھ من جانب اللہ ہم کو عطاء کیا ہے وہ ہم تک صحابہ کرام ؓ ہی کی معرفت پہنچا ہے۔صحابہ کرام سے محبت اور ان کی عظمت ایمان کا حصہ ہے:صحابہ کرام ؓسے محبت کرنااور اُن کاظاہری و باطنی طور پر عملاًاحترام کرنا، صحابہ سے بغض و عداوت رکھنے والوں سے نفرت و عداوت رکھنا، صحابہ کیباہمی ظاہری اختلافات میں خاموشی اختیار کرنا اور ہر قسم کی منفی رائی دہی سے اجتناب کرنا، اور یہ عقیدہ رکھناکہ تمام صحابہ مجتہد ہیں اور اللہ کے یہاں انتہائی معزَّز اور اجر و ثواب والے ہیں اور اُن کی سیرت و کردار کو زبانی و عملی طور پر اپنانا’’ہر مسلمان پرفرض و واجب ہے‘‘۔صحابۂ کرامؓ کے مقدس گروہ پر طعن و تشنیع کرنا انتخاب خداوندی کی توہین ہے:صحابہ کرام وہ انفاسِ قدسیہ کا گروہ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے نبی کی معیت کیلئے منتخب کیا جب مکہ میں تھے تو ہاتھ میں ہاتھ دے کر بیعت کی دامنِ رسالت کو تھام لیا اور مدینہ پہنچنے پر اپنے آپ کو قدموں میں ڈال کر اپنی جانیں نچھاور کردیں۔ حضراتِ صحابہ امت کا عظیم ترین سرمایہ ہے‘ اگر کوئی حضرات صحابہ پر طعن و تشنیع کرتا ہے تو وہ خدا کے انتخاب کی توہین کررہا ہے،فتنوں کے اس دور میں ہم لوگ دین سے دور ہوکر سطحی مطالعہ کرکے اکتفاء نہ کریں بلکہ اپنے ایمان کو بچانے کیلئے اہل علم اور اہل اللہ سے مربوط ہوکر زندگی گزارے۔صحابہ کی سیرت کا مطالعہ نوجوان نسل کی ذہنی تربیت اور عملی رہنمائی کیلئے ناگزیر اور غیر معمولی حد تک موثر ہے: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے بعد جن مبارک ہستیوں کی سیرتوں کا مطالعہ مسلمانوں خصوصا نوجوان نسل کی ذہنی تربیت اور عملی رہنمائی کیلئے ناگزیر اور غیر معمولی حد تک موثر ہے وہ آپؐکے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہی ہیں ان کی سیرت کے مطالعہ سے نوجوانوں کے اندر اسلامی روح پیدا و مستحکم ہو گی اور ان کا خوابیدہ شعور بیدار ہونے کے ساتھ انہیں اپنی بے پناہ قوت تسخیر کا اندازہ ہو گا جسے قدرت نے ان کے وجود میں ودیعت کر رکھا ہے اور وہ اپنی شکست نا آشنا،عزم و حوصلہ سے کام لے کر ارواح و اجساد کی کی دنیا کی تسخیر کا عظیم کارنامہ انجام دینے کے لئے اٹھ کھڑے ہوں گے۔
ضرورت اس امر کی ہے ہم صحابہ کی سیرت کا مطالعہ کریں، نئی نسل کو انکی حیات طیبہ سے واقف کرائیں اور ان کی سیرت پر عمل پیرا ہوں ان کی تعلیمات اور ان کے پیغام امن کو عام کرنے کی کوشش کریں اس سے دونوں جہاں میں کامیابی و سرخروئی سے ہمکنار ہوں گے اور لوگ اسلام کے قریب ہوں گے۔