پورا سماج بنگلہ دیش کے ہندو طبقے کے ساتھ مضبوطی سے کھڑا ہے: آر ایس ایس

دھارواڑ، اکتوبر۔ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) نے آج بنگلہ دیش میں ہندوؤں پر مسلم انتہاپسندوں کے پرتشدد حملوں کی سخت مذمت کرتے ہوئے وہاں کی حکومت سے ایسے عناصر کے خلاف سخت کارروائی کرنے کی اپیل کی اور بنگلہ دیشی ہندو سماج کو یقین دلایا کہ آر ایس ایس سمیت پورا ہندو سماج اس مشکل وقت میں ان کے ساتھ مضبوطی سے کھڑا ہے۔کرناٹک کے دھارواڑ میں منعقد ہونے والی آرایس ایس کے آل انڈیا ایگزیکٹو بورڈ کی تین روزہ میٹنگ میں آج بنگلہ دیش کی پیش رفت پر ایک قرارداد منظور کی گئی۔ سرسنگھ چالک موہن بھاگوت اجلاس کی صدارت کر رہے ہیں۔ قرارداد میں مرکزی حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ بنگلہ دیش کی حکومت پر سفارتی ذرائع سے ان واقعات کو روکنے کے لیے دباؤ ڈالے۔قرارداد میں کہا گیا کہ آل انڈیا ایگزیکٹو بورڈ بنگلہ دیش میں ہندوؤں پر ہونے والے پرتشدد حملوں اور وہاں کی ہندو اقلیتوں کے خلاف جاری وحشیانہ تشدد پر اپنے گہرے رنج و غم کا اظہار کرتا ہے اور بنگلہ دیش میں وسیع پیمانے پر اسلامائزیشن کے لیے جہادی تنظیموں کی سازش کی شدید مذمت کرتا ہے۔قرارداد میں کہا گیا کہ بنگلہ دیش کے اقلیتی ہندو سماج اور ہندو مندروں پر پرتشدد حملوں کا سلسلہ بلا روک ٹوک جاری ہے۔ ماضی میں درگا پوجا کے تہوار کے دوران شروع ہونے والے اس فرقہ وارانہ تشدد میں کئی بے گناہ ہندو مارے گئے، سینکڑوں لوگ زخمی اور ہزاروں خاندان بے گھر ہو گئے۔ پچھلے دو ہفتوں کے اندر ہندو سماج کی کئی مائیں اور بہنیں ظلم کا شکار ہوئیں اور مندروں اور درگا پوجا کے پنڈال کو تباہ کیا گیا۔آر ایس ایس نے کہا کہ بے بنیاد جھوٹی خبریں پھیلا کر فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے والے کچھ مجرموں کی گرفتاری سے یہ واضح ہو ہے کہ بنیاد پرست اسلامی طاقتوں کا تازہ حملہ ایک سوچی سمجھی سازش کا نتیجہ تھا۔ ہندو سماج کو نشانہ بناکر کیے جانے والے بار بار کے تشدد کا اصل مقصد بنگلہ دیش سے ہندو سماج کا مکمل خاتمہ ہے، جس کا نتیجہ ہے کہ تقسیم ہند کے وقت سے ہندو سماج کی آبادی میں مسلسل کمی آرہی ہے۔قرارداد میں کہا گیا کہ مشرقی بنگال میں ہندوؤں کی آبادی جو تقسیم ہند کے وقت تقریباً اٹھائیس فیصد تھی اب کم ہو کر آٹھ فیصد رہ گئی ہے۔ جماعت اسلامی (بنگلہ دیش) جیسے بنیاد پرست اسلام پسند گروپوں کے مظالم نے تقسیم کے وقت سے اور خاص طور پر 1971 کی جنگ کے دوران ہندو سماج کی ایک بڑی تعداد کو ہندوستان ہجرت کرنے پر مجبور کیا۔ بنگلہ دیش بننے کے بعد آج بھی وہی عناصر سماجی ہم آہنگی کو خراب کر رہے ہیں جس کی وجہ سے اقلیتی ہندو سماج میں عدم تحفظ کا احساس پیدا ہو گیا ہے۔قرارداد کے مطابق آل انڈیا ایگزیکٹو بورڈ نے مطالبہ کیا کہ بنگلہ دیش کی حکومت اپنے ملک کی اقلیتی برادری کے خلاف بڑھتے ہوئے تشدد کو روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرے۔ حکومت کو یہ بھی یقینی بنانا چاہیے کہ ہندو مخالف تشدد کے مرتکب افراد کو سخت سے سخت سزا دی جائے تاکہ ہندو سماج میں یہ یقین پیدا ہو کہ وہ بنگلہ دیش میں اپنے حقوق کا استعمال کرتے ہوئے باوقار اور محفوظ زندگی گزار سکتے ہيں۔قرارداد میں کہا گیا کہ آل انڈیا ایگزیکٹیو بورڈ انسانی حقوق کی نام نہاد تنظیموں اور اقوام متحدہ سے وابستہ اداروں کی خاموشی پر اپنی تشویش کا اظہار کرتا ہے اور عالمی برادری سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اس تشدد کی مذمت کے لیے آگے آئے اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے آگے آئے۔ بنگلہ دیش کے اقلیتی طبقوں کے تحفظ اور سلامتی کے لیے آواز بلند کریں۔ وہ یہ بھی متنبہ کرنا چاہتا ہے کہ بنگلہ دیش یا دنیا کے کسی اور حصے میں بنیاد پرست اسلامی قوتوں کا عروج دنیا کے امن پسند ممالک کے جمہوری نظام اور انسانی حقوق کے لیے سنگین خطرہ ثابت ہوگا۔

Related Articles