’امریکہ، اسرائیل، انڈیا، یو اے ای کے اتحاد میں فوجی تعاون شامل نہیں‘
نئی دہلی، اکتوبر ۔اسرائیل نے آج واضح کیا کہ امریکہ، اسرائیل، ہندوستان اور متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کا نیا چار فریقی اتحاد صرف اقتصادی مسائل پر تعاون پر مرکوز ہے اور اس میں کسی بھی شکل میں فوجی تعاون شامل نہیں ہے۔ہندوستان میں اسرائیل کے نئے سفیر ناورگیولن سے جب یہاں ایک پریس کانفرنس میں اس بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ اس نئے اتحاد کی پہلی میٹنگ وزیر خارجہ ایس جے شنکر کے دورہ کے دوران ہوئی تھی جس میں ہندوستان اور اسرائیل کے وزرائے خارجہ براہ راست اور امریکہ اور یو اے ای کے وزرائے خارجہ ورچول طور پر موجود تھے۔جب ان سے اس چار فریقی اتحاد اور ان ممالک کے درمیان فوجی تعاون کی نوعیت کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ اس اتحاد میں فوجی تعاون کا کوئی عنصر نہیں ہے۔ اس کی توجہ صرف اقتصادی تعاون اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی پر ہے۔ فوجی معاملات میں ہر ملک کی اپنی حساسیت ہے اور اس کے پیش نظر اس میں فوجی عنصر کو شامل نہیں کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ ہمارا خیال ہے کہ اسرائیل کی ٹیکنالوجی، متحدہ عرب امارات کی سرمایہ کاری، ہندوستان کی مینوفیکچرنگ کی صلاحیت اور امریکہ کے تکنیکی اقتصادی اثر و رسوخ کو دیکھتے ہوئے یہ نیا چار فریقی اتحاد ایک اہم اقتصادی بلاک بن سکتا ہے‘۔یہ اتحاد اعلیٰ سطح پر ملاقات کے امکان کے بارے میں پوچھے جانے پر مسٹر گیلون نے کہا کہ اس وقت وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ اعلیٰ سطحی ملاقات ہو سکتی ہے۔ ابھی اس پربات چیت چل رہی ہے۔ وزراء اسرائیل یا یو اے ای کی کمپنیوں سے ملنا چاہتے ہیں۔ اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ اگلی ملاقات کمپنیوں کے ساتھ ہو گی یا رہنماؤں کا سربراہی اجلاس۔ تاہم ہم رہنماؤں کی ملاقات کے حوالے سے بھی ہم پر امید ہیں۔مسٹر گیلون نے اپنے ابتدائی کلمات میں وزیر خارجہ ایس جے شنکر کے دورہ کو ایک بہت بڑی کامیابی اور ہندوستان-اسرائیل اسٹریٹجک پارٹنرشپ کو ایک نئی بلندی قائم کرنے کے طور پر قرار دیا۔ بعد ازاں ایک سوال کے جواب میں مسٹر گیلون نے کہا کہ ملاقات میں ہندوستانی اور اسرائیلی وفود کے درمیان ایران کے مسئلہ پر بھی کھل کر بات کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ یہ درست ہے کہ ہر ملک کے اپنے مفادات ہوتے ہیں۔ ایران کے بارے میں اسرائیل کا نقطہ نظر بہت واضح ہے اور اس نے ایک ایرانی صدر کی طرف سے اسرائیل کو دنیا کے نقشے سے مٹانے کی دھمکی کو بہت سنجیدگی سے لیا ہے۔ اس کی ایٹمی طاقت مغربی ایشیا کے امن کے لیے خطرہ ہے۔
انہوں نے تسلیم کیا کہ افغانستان میں ہندوستان کے مفادات اور وسطی ایشیائی ممالک تک رسائی کے معاملے پر ایران میں ہندوستان کے اپنے مفادات ہیں۔ ملاقات میں ہندوستانی حکام نے اس بارے میں بھی تبادلہ خیال کیا۔ ساری گفتگو کھلے ماحول میں ہوئی۔ہندوستان اور اسرائیل کے درمیان فوجی اور سیکورٹی تعاون کے بارے میں پوچھے جانے پر سفیر نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان فوجی اور سیکورٹی تعاون بہت مضبوط ہے۔ دفاعی پیداوار میں بھی ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔ کچھ مشترکہ منصوبے قائم کرنے کی کوششیں بھی جاری ہیں۔ وہ اس سے زیادہ کچھ نہیں کہنا چاہتے۔ جہاں تک انسداد دہشت گردی کے اقدامات کا تعلق ہے، اسرائیل دنیا میں اس برائی کا سب سے زیادہ شکار ہے اور ہندوستان بھی اس کا شکار ہے۔ ہمیں دہشت گردی کے خطرات سے نمٹنے کے لیے ٹیکنالوجی اور مہارت کے معاملے میں ہندوستان کے ساتھ تعاون کرنے میں بہت خوشی ہوگی۔مسٹر گیلون نے یہ بھی کہا کہ اگلے سال جب کہ ہندوستان اپنی آزادی کے 75 سال مکمل کر رہا ہے، ہندوستان اور اسرائیل اپنے سفارتی تعلقات کے قیام کی 30ویں سالگرہ بھی منائیں گے۔ اس سال اعلیٰ سطحی دورہ ہو سکتا ہے۔