بچوں کی تربیت پر توجہ ضروری
ہماری زندگیوں میں ایک کام ایسا ہے جو دنیا کے باقی تمام کاموں سے زیادہ اہم ہے، زمانہ قدیم سے اس کام کی اہمیت میں کوئی کمی نہیں آئی، ہماری زندگی کا ہر لمحہ، ہمارا حال، ہمارا مستقبل اس کام سے جڑا ہے، یہ کام جتنا اہم ہے اتنا ہی مشکل بھی ہے، ہم سب اس کی اہمیت اور مشکل سے آگاہ ہیں، مگر اس کے باوجود زیادہ تر لوگ اس کام میں دلچسپی نہیں لیتے، اپنی زندگی کا جتنا وقت ہم دیگر کاموں میں صرف کرتے ہیں اس کا عشر عشیر بھی اس اہم ترین کام میں نہیں لگاتے اور سمجھتے ہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ کام کسی خود کار نظام کے تحت ہوتا چلا جائے گا اور یہی ہماری زندگی کی سب سے بڑی غلط فہمی ہے۔ یہ کام ہے بچوں کی تربیت، یہ درست ہے کہ ہم اپنے بچوں سے بہت پیار کرتے ہیں، ان کی خاطر دن رات کام کرتے ہیں، اپنی بساط سے بڑھ کر انہیں مہنگے اور اعلیٰ اسکولوں میں پڑھاتے ہیں، ہماری زندگی کی مصروفیات کا کوئی نہ کوئی حصہ بچوں سے جڑا ہوتا ہے، ماؤں کی زندگیاں تو اپنے بچوں کے گرد ہی گھومتی رہتی ہیں، خاص طور پر اگر وہ چھوٹے ہوں، بچے اگر بیمار ہوجائیں تو ہماری جان نکل جاتی ہے، بچوں کے امتحان ہورہے ہوں تو ہم دیوانے ہوجاتے ہیں، ان کے نمبر اچھے آجائیں تو ہم خوشی سے پاگل ہوجاتے ہیں، نمبر برے آجائیں تو ماتم کرنے لگتے ہیں۔ یہ تمام کام کرتے ہوئے ہم یہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ ہم بچوں کی تربیت کا فریضہ انجام دے رہے ہیں جبکہ درحقیقت ان باتوں کا مطلب یہ ہے کہ ہم بچوں کی صرف پرورش کر رہے ہیں، تربیت نہیں۔ بچے کو دودھ پلانا، اس کی غذائی ضروریات کا خیال رکھنا، اس کو پڑھانا لکھانا، کپڑے پہنانا، یہ سب اس کی پرورش کا تقاضہ ہے، اس کی ضروریات ہیں، جیسے جانور اپنے بچوں کو خوراک کھلاتے ہیں یا انہیں باقی جانوروں سے محفوظ رکھتے ہیں تو وہ اپنے بچوں کی پرورش کر رہے ہوتے ہیں، تربیت کا کام اس سے مختلف ہے۔
بچوں کی تربیت کے لئے ضروری ہے کہ والدین کی تربیت ٹھیک ہوئی ہو اور اس سے بھی زیادہ ضروری ہے کہ والدین کو علم ہو کہ بچوں کی تربیت کیسے کی جائے۔ کیسی عجیب بات ہے کہ ہم سردرد کی گولی کھانے سے پہلے تو ڈاکٹر سے مشورہ کرتے ہیں مگر بچوں کی تربیت کے لئے کسی سے مشورہ ضروری نہیں سمجھتے، ڈرائیونگ لائسنس کے لئے ضروری ہے کہ ہم نے گاڑی چلانے کی تربیت حاصل کی ہو مگر بچوں کی تربیت کے لئے ہمیں کسی تربیتی کورس کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ بچوں کی تربیت جیسا اہم ترین کام ہم یونہی تیر تکے پر کرتے ہیں اور تحت الشعور میں سمجھتے ہیں کہ بطور والدین یہ کام ہم قدرتی طور پر انجام دے رہے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ہم اپنے بچوں کی تربیت کے معاملے میں بالکل ہی لاپروا ہیں، کم از کم ہماری خواہش ضرور ہے کہ ہمارا بچہ ایک اعلیٰ انسان بنے، زندگی میں کامیاب ہو، ساری دنیا کا علم گھول کر پی جائے، ذہنی اور جسمانی طور پر چاق و چوبند ہو، لیکن یہ خواہشات عملی اقدامات کے بغیر پوری ہونا ممکن نہیں۔