تعلیم اور ثقافت میں عوام کی شرکت اہم ہے: مودی
نئی دہلی، اپریل ۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے اتوار کو کہا کہ تعلیم اور ثقافت کے شعبے سے متعلق مسائل کو انہوں نے من کی بات پروگرام میں کئی بار اٹھایا ہے اور انہیں اس بات کی خوشی ہے کہ ان شعبوں میں عوامی شرکت بڑھنے سے انقلابی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔اپنے ماہانہ ریڈیو پروگرام من کی بات کے 100ویں ایپی سوڈ میں مسٹر مودی نے کہا کہ انہوں نے من کی بات کے ذریعے پہلے کئی مرتبہ تعلیم اور ثقافت کے میدان میں کام کرنے والے بہت سے لوگوں کے کام کی تعریف کی ہے۔ اس شعبے میں ہندوستان میں ہورہے کاموں کی عالمی سطح پر چرچا ہو رہی ہے اور خود یونیسکو کے ڈائریکٹر جنرل آڈرے ازولے نے بھی اس بارے میں ان سے بات کرتے ہوئے خوشی کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہناتھا کہ ان دونوں شعبوں میں بات چیت من کی بات کے پسندیدہ موضوع رہے ہیں۔انہوں نے کہا، بات تعلیم کی ہو یا ثقافت کی، اس کے تحفظ کی بات ہو یا فروغ کی، ہندوستان کی یہ قدیم روایت رہی ہے۔ اس سمت میں آج ملک جو کام کر رہا ہے وہ واقعی قابل ستائش ہے۔ قومی تعلیمی پالیسی ہو یا علاقائی زبان میں تعلیم حاصل کرنے کا اختیار، تعلیم میں ٹیکنالوجی کو شامل کیا جائے، آپ کو ایسی بہت سی کوششیں نظر آئیں گی۔ برسوں پہلے گجرات میں بہتر تعلیم فراہم کرنے اور اسکول چھوڑنے کی شرح کو کم کرنے کے لیے ، گنوتسو اور شالا پرویشوتسو جیسے پروگرام عوامی شرکت کی ایک شاندار مثال بن گئے تھے۔ من کی بات میں، ہم نے بہت سے لوگوں کی کوششوں کو اجاگر کیا ہے جو تعلیم کے لیے بے لوث کام کر رہے ہیں۔وزیر اعظم نے کہا، اس تناظر میں، اس پروگرام میں، ہم نے ایک بار اڈیشہ میں ٹھیلے پر چائے فروش آنجہانی ڈی پرکاش راؤ جی کے بارے میں بات کی تھی، جو غریب بچوں کو پڑھانے کے مشن میں مصروف تھے۔ جھارکھنڈ کے دیہات میں ڈیجیٹل لائبریری چلانے والے سنجے کشیپ جی ہوں، کووڈ کے دوران ای لرننگ کے ذریعے بہت سے بچوں کی مدد کرنے والی ہیملتا این کے جی ہوں، ایسے کئی اساتذہ کی مثالیں ہم نے ’من کی بات، میں لی ہیں۔ ہم نے ثقافتی تحفظ کی کوششوں کو بھی من کی بات میں مسلسل جگہ دی ہے۔وزیر اعظم نے کہا کہ لکشدیپ کا کُمیل برادرز چیلنجرز کلب ہو یا کرناٹک کا کویم شری جی کلا چیتنا ، جیسے پلیٹ فارم ہوں، ملک کے گوشے گوشے سے لوگوں نے مجھے خط لکھ کر ایسی مثالیں بھیجی ہیں۔ ہم نے ان تین مقابلوں کے بارے میں بھی بات کی تھی جو حب الوطنی پر گیت ، لوری اور رنگولی سے متعلق تھے۔ آپ کو یاد ہوگا، ایک بار ہم نے ملک بھر سے اسٹوری ٹیلرز سے کہانیوں کے ذریعے تعلیم کے ہندوستانی طریقوں پر تبادلہ خیال کیا تھا۔ مجھے پختہ یقین ہے کہ اجتماعی کوششیں بڑی سے بڑی تبدیلی لا سکتی ہیں۔ اس سال ہم جہاں آزادی کے امرت کال میں آگے بڑھ رہے ہیں وہیں جی-20 کی صدارت بھی کر رہے ہیں۔ یہ بھی ایک وجہ ہے کہ تعلیم کے ساتھ ساتھ عالمی ثقافتی تنوع کو تقویت دینے کا ہمارا عزم مضبوط ہوا ہے۔