نئی زرعی اصلاحات نے کسانوں کو طاقت ورگروہوں سے دلائی آزادی : وزیراعظم مودی
پٹنہ: وزیراعظم نریندر مودی نے پارلیمنٹ سے کل ملک کے کسانوں کو نئے حقوق دینے والے پاس قوانین کو 21 ویں صدی کے ہندوستان کی ضرورت بتایا اورکہاکہ یہ تبدیلی کسان اور زرعی منڈیوںکے خلاف نہیںہے بلکہ ملک کے ان طاقت ور گروہوںسے کسانوں کو چھٹکارہ دلانے کیلئے ہے جو اب تک ان کی مجبوری کا فائدہ اٹھارہے تھے ۔
مسٹر مودی نے سموار کو ویڈیو کانفرنسنگ کے توسط سے بہار میں نیشنل ہائی وے ( این ایچ ) اور پل تعمیر کے نومنصوبوں کا آغاز کرنے کے بعد تقریب کو خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ملک کی پارلیمنٹ نے کل ملک کے کسانوں کو نئے حقوق دینے والے بہت ہی تاریخی قوانین کو پاس کیا ہے ۔ یہ اصلاح 21 ویں صدری کے ہندوستان کی ضرورت ہے ۔ انہوں نے کہاکہ ملک میں اب تک اپج اور فروخت کا جو نظام چلا آرہا تھا اور جو قوانین تھے اس نے کسانوں کے ہاتھ۔ پاﺅں باندھ رکھے تھے ۔ ان قوانین کی آڑ میں ملک میں ایسے طاقت ور گروہ پیدا ہو گئے تھے جو کسانوں کی مجبوری کا فائدہ اٹھارہے تھے ۔ آخر یہ کب تک چلتا رہتا ۔ اس لئے اس نظام کو تبدیل کرنا ضروری تھا اور یہ تبدیلی ان کی حکومت نے کر کے دکھایا ہے ۔
وزیراعظم نے کہاکہ بڑے نظام کی تبدیلی کے بعد کچھ لوگوں کو اپنے ہاتھ سے کنٹرول جاتا ہوا دکھائی دے رہاہے اس لئے یہ لوگ کم ازکم سپورٹ ( ایم ایس پی ) قیمت پر لوگوں کو گمراہ کرنے میں مصروف ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جو سالوں تک ایم ایس پی پر سوامی ناتھن کمیٹی کی سفارشات کو اپنے پیروں کے نیچے دباکر رکھے ہوئے تھے۔ انہوں نے کہاکہ وہ ملک کے ہر ایک کسان کو اس بات کی یقین دہانی کراتے ہیں کہ ایم ایس پی کانظم جیسے پہلے سے چلتا آرہا تھا ویسے ہی آئندہ بھی جاری رہنے والا ہے ۔ اسی طرح ہر موسم میں سرکاری خرید کیلئے جس طرح سے مہم چلائی جاتی رہی ہے وہ بھی پہلے کی طرح ہی چلتی رہیںگی ۔
مسٹر مودی نے کہاکہ نئی زرعی اصلاحات نے ملک کے ہر کسان کو یہ آزادی دی ہے کہ وہ کسی کو بھی اور کہیں پر بھی اپنی فصل ، پھل ۔ سبزیاں اپنی شرطوں پر بیچ سکتا ہے ۔ اب اسے اپنے علاقے کی منڈی کے علاوہ بھی کئی اور آپشن مل گئے ہیں۔ اب اسے جہاں بھی منڈی میں زیادہ فائدہ ملے گا وہ وہاں جاکر اپنی پیداوار فروخت کرے گا۔ منڈی کے علاوہ اگر کہیں زیادہ فائدہ ملتاہے تو وہاں جاکر فروخت کرے گا۔
وزیراعظم نے کہاکہ اب سوال یہ ہے کہ آخر اس سے فرق کیا پڑے گا اور اس سے کسانوں کو کیا فائدہ ہوگا اور یہ کس طر ح سے کسانوں کی معاشی حالت کو بدلنے میں مدد گار ہوگا۔ اس کا جواب اب گراﺅنڈ رپورٹنگ سے ہی مل رہی ہے ۔ کسانوں کو ملی اس آزادی کے کئی فائدے دکھائی دینے شروع بھی ہو گئے ہیں کیونکہ اس کا آرڈیننس کچھ مہینے قبل لایا گیا تھا۔ انہوں نے کہاکہ ایسی ریاست جہاں آلو بہت ہوتے تھے وہاں سے رپورٹ ہے کہ جون ۔ جولائی کے دوران ہول سیل خریداروں نے کسانوں کو زیادہ منافع دے کر سیدھے کولڈ اسٹوریج سے ہی آلو خرید لیا ہے ۔ باہر کسانوں کو آلو کے زیادہ دام ملے تو منڈیوں نے بھی کسانوں کو زیادہ دام دیئے ۔
مسٹرمودی نے کہاکہ اس طرح مدھیہ پردیش اور راجستھان سے ملی رپورٹ کے مطابق تیل ملوں نے کسانوں کو سیدھے 20 سے 30 فیصد زیادہ دام دے کر سرسوں کی خرید کی ہے ۔ ان ریاستوں میں گذشتہ سال کے مقابلے میں 15 سے 25 فیصد زیادہ دام سیدھے کسانوں کو ملے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ اس سے اب ملک اندازہ لگا سکتاہے کہ اچانک کچھ لوگوں کو کیوں دقت ہونی شروع ہوگئی ہے ۔
وزیراعظم نے کہاکہ کئی جگہوں سے سوال اٹھائے جارہے ہیں کہ زرعی منڈیوں کا اب کیا ہوگا۔ وہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ یہ قانون زرعی منڈیوں کے خلاف نہیں ہے ۔ زرعی منڈیوں میں جیسے کام پہلے ہوتے تھے ویسے ہی اب بھی ہوںگے ۔ انہوں نے کہاکہ یہ قومی جمہوری اتحاد ( این ڈی اے ) کی ہی حکومت ہے جس نے زرعی منڈیوں کو جدید بنانے کیلئے مسلسل کام کیا ہے ۔ وہاں کمپیوٹرائزیشن کے لئے گذشتہ پانچ۔ چھ سال سے ملک میں بڑی مہم چل رہی ہے ۔ اس لئے جو یہ کہتے ہیں کہ زرعی منڈیاں ختم ہوجائیں گی تو وہ کسانوں سے جھوٹ بول رہے ہیں۔
مسٹر مودی نے کہاکہ بہت پرانی کہاوت ہے کہ تنظیم میں طاقت ہوتی ہے ۔ زرعی اصلاحات سے متعلق دوسرا قانون اسی سے حوصلہ افزا ہے ۔ آج ملک میں 85 فیصد سے زائد کسان ایسے ہیں جن کے پاس بہت کم زمین ہے ۔ سب چھوٹے کسان ہیں ، اس وجہ سے ان کا خرچ بھی بڑھ جاتاہے اور انہیں اپنی تھوڑی سی پیداوار فروخت کرنے مناسب قیمت بھی نہیں ملتی ہے ۔ لیکن جب کسان ایک تنظیم بناکر یہ کام کرتے ہیں تو ان کا خرچ بھی کم ہوتاہے اور انہیں پیداوار کے دام بھی صحیح ملتے ہیں۔ بہار سے آئے خریدار ان تنظیموں سے باقاعدہ سمجھوتا کر کے سیدھے ان کی پیداوار خرید سکتے ہیں۔ ایسے میں کسانوں کے مفادات کی حفاظت کیلئے دوسرا قانون بنایا گیا ہے ۔ ایک ایسا قانون جہاں کسانوں پر کوئی بندش نہیںہوگی ۔ کھیت اور اس کی حفاظت کھاد اور بیج کی گارنٹی معاہدہ کرنے والے کی ہوگی ۔
وزیراعظم نے کہاکہ ان اصلاحات سے زراعت میں سرمایہ کاری بڑھے گی ۔ کسانوں کو جدید تکنیک ملے گی اور ان کی پیدوار بین الا قوامی بازار میں پہنچیںگے ۔ حال ہی میں بہار میں پانچ زرعی مینو فیکچریونین ( ایف پی او ) نے مل کر چاول فروخت کرنے والی ایک مشہور کمپنی کے ساتھ معاہد کیا ہے ۔
اس کے تحت چار ہزار ٹن دھان بہار کے ان ایف پی او سے خریدے گی ۔ ان ایف پی او سے منسلک کسانوں کو منڈی نہیں جاناپڑے گا۔ ان کی پیداوار اب بین الاقوامی بازار میں پہنچے گی ۔ زراعت سے منسلک صنعتوں کے لئے بڑا راستہ کھلے گا۔
مسٹرمودی نے کہاکہ زرعی تجارت کرنے والوںکے سامنے ضروری اشیاءایکٹ کے نظم بڑی رکاوٹ کی طرح رہے ہیں ۔ اس میں بھی تبدیلی کی گئی ہے ۔ دال ، آلو اور خوردنی تیل جیسی اشیاءاس ایکٹ سے باہر کر دی گئی ہیں۔ اب ملک کے کسان بڑے ۔ بڑے اسٹور ہاﺅ س اور کولڈ اسٹوریج میں ان کا آسانی سے اسٹور کر پائیںگے ۔ جب اسٹورسے منسلک قانونی دشواریاں دور ہوںگی تو ملک میں کولڈ اسٹوریج کا بھی نیٹ ورک فروغ پائے گا۔