خاتون قائدین پورے دیہی بھارت میں تبدیلی کو ممکن بنا رہی ہیں :ونی مہاجن

نئی دہلی، مارچ ۔یہ ناری شکتی کرن یا خواتین اختیارکاری کا عہد ہے۔ دراصل یہ وقت وہ ہے جب ہمیں ہمارے معاشرے میں خواتین کی قوت کو تسلیم کرنا چاہئے تاہم یہ کھیل کود، سیاست، سنیما، مسلح دستوں، کارپوریٹ کاروبار یا دیگر شعبوں میں ہی صرف خواتین سے متعلق بات نہیں ہے۔ یہ دیہی بھارت کی عام خواتین کی بات ہے جو مردوں کو حاصل مساوی مواقع اور مراعات سے محروم ہونے کے باوجود ہماری دیہی برادریوں میں تبدیلی لانے کا باعث ثابت ہوئی ہیں اور انہوں نے تغیر کو ممکن کرکے دکھایا ہے اور یہ چیزیں سووَچھ بھارت مشن، گرامین، یا ایس بی ایم-جی جیسی پہل قدمیوں کی بدولت ممکن ہو سکی ہیں۔ان خیالات کا اظہار وزارت جل شکتی ، حکومت ہند کے تحت پینے کے پانی اور صفائی ستھرائی کے محکمے کی سکریٹری محترمہ ونی مہاجن نے کیا-انھوں نے مزید کہا کہ پینے کے پانی اور صفائی ستھرائی کے محکمے کے ایک حصے کے طور پر مجھے اس تغیر کو ملاحظہ کرنے کا موقع حاصل ہوا تھا۔ ایس بی ایم-جی فی الحال دوسرے مرحلے میں ہے۔ پروگرام کے پہلے مرحلے کا آغاز 2 اکتوبر 2014 کو ہمارے وزیر اعظم کے ذریعہ کیا گیا تھا جس کے ذریعہ اہم مقاصد کے ایک حصے کے طور پر بھارت کو کھلے میں رفع حاجت سے مبرا ملک بنایا گیا، ایس بی ایم-جی مرحلہ 2 کا مقصد ٹھوس فضلہ اور رقیق فضلہ انتظام سمیت او ڈی ایف یعنی کھلے میں رفع حاجت کی کامیابی کو قائم و دائم رکھنا ہے۔ اس میں گوبردھن سمیت حیاتیاتی لحاظ سے مٹی میں مل جانے والے ٹھوس فضلے کا انتظام بھی شامل ہے، جو اشیاء مٹی میں فطری انداز میں سڑ -گل کر نہیں مل پاتیں ان کو ٹھکانے لگانے کے لیے بہتر طور طریقے اپنانا بھی اس میں شامل ہیں، مستعمل پانی جس میں مختلف کیمیاوی اشیاء کی آمیزش ہوتی ہے، اس کا انتظام اور انسانی فضلے کی شکل میں خارج ہونے والی گاد کا انتظام کرکے صفائی ستھرائی کا بہتر انتظام ہو رہا ہے۔محترمہ ونی مہاجن نے کہا کہ ایس بی ایم – جی کے کلیدی تناظر میں صرف انفرادی طور پر کنبوں میں بیت الخلاؤں کی تعمیر اور فنڈ کی فراہمی کا پہلو شامل نہیں تھا بلکہ اس کے تحت عوام الناس کے اجتماعی برتاؤ میں تبدیلی لانے کو بھی یقینی بنائے جانے کا پہلو شامل تھا۔ لہٰذا اس اہم کامیابی کے حصول کے تئیں ہمارا طریقہ کار سماج کی قیادت والی کلی صفائی ستھرائی (سی ایل ٹی ایس)پر مبنی تھا۔ یہ وہ طریقہ کار تھا جس پر گذشتہ 15 سے 20 برسوں کےد وران مختلف ممالک میں تجربہ کیا گیا ہے اور اسے عمل میں لاکر دیکھا گیا ہے۔ سی ایل ٹی ایس طریقہ کار نے سماج کے اندر سے اشتراک کی حوصلہ افزائی کی اور ان کے اپنے تجزیے کی بنیاد پر مختلف مسائل کے حل نکالنے کا راستہ ہموار کیا۔ اس سے مقامی خواتین عرصہ دراز سے ان کے ذریعہ سامنا کیے جانے والے مسائل اور بیزاری کے خلاف آواز اٹھانے کے لائق بنیں۔ گاؤں میں سکونت پذیر ہماری خواتین ہی اس کڑی آزمائش کو بہتر طور پر بیان کر سکتی ہیں جو انہیں دن کے اول حصے میں کھلے میں رفع حاجت کی شکل میں برداشت کرنی پڑتی تھی، خاص طور پر حیض اور حمل کے زمانے میں انہیں جو مسائل درپیش ہوتے تھے اس کا بیان ان سے بہتر کون کر سکتا ہے۔ خواہ موسم سرما ہو یا بارش کا زمانہ انہیں یہ مسائل جھیلنے ہی پڑتے تھے۔ گھر میں بیت الخلاء کا نہ ہونا ایک ایسا مسئلہ تھا جس سے نہ صرف یہ کہ ان کی ذاتی پردہ داری اور تحفظ خطرے میں پڑ جایا کرتے تھے بلکہ ان کے بنیادی حقوق پر بھی یہ ایک طرح کا حملہ تھا۔ کھلے میں رفع حاجت سے مبرا ہندوستان کی سب سے بڑی استفادہ کنندہ خواتین ہی ہیں اور اس کے نتیجہ میں زیادہ سے زیادہ تعداد میں خواتین اس تحریک کو آگے بڑھانے اور اس کی قیادت کرنے میں آگے رہی ہیں اور اس کی کامیابی میں انہیں سرکردہ حیثیت حاصل ہو رہی ہے۔30 سے 40 فیصد کے بقدر خواتین رضاکاران جنہیں سووَچھ گرہی کے نام سے جانا جاتا ہے، انہوں نے فطری قائدین کی شکل میں آگے آکر اجتماعی برتاؤ جاتی تبدیلی کو ممکن بنایا ہے۔ خواتین کی نگرانی کمیٹی یا مہیلا نگرانی سمیتیوں نے کھلے میں رفع حاجت پر مکمل پابندی لگانے کو یقینی بنایا ہے۔ بنیادی طور پر خواتین قائدین کے ذریعہ اس مہم کی قیادت کی جا رہی ہے۔ خواتین کے سیلف ہیلپ گروپوں کے علاوہ دیگر گروپ مثلاً مہیلا سماکھیا گروپ وغیرہ بھی اس میں اپنا تعاون دے رہے ہیں۔ انہوں نے بھی اس تحریک کے ساتھ اپنے آپ کو مربوط کیا ہے۔ پنچایتی راج اداروں میں منتخب ہونے والی خواتین نمائندگان نے بھی متعدد مقامات پر ایک فعال کردار ادا کیا ہے۔ بلاخوف تردید یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ خواتین کو شامل کرنے سے ایس بی ایم – جی کامیابی سے ہمکنار ہوئی، جبکہ اس سے پہلے چلائی گئی صفائی ستھرائی کی مہمات نسبتاً اتنی کامیاب نہیں ہوئی تھیں۔ خواتین قائدین نے ایک گروپ کے تعاون سے مردوں یا باپ کی وراثت پر مبنی معاشروں میں برادریوں کے برتاؤ میں تبدیلی لانے کے معاملے میں ازحد عمدہ کام کیا۔ یہ وہی معاشرے تھے جہاں اس سے قبل خواتین کو قائدانہ کردار میں تسلیم نہیں کیا جاتا تھا۔انھوں نے مزید کہا کہ یہاں ایس بی ایم- جی کی بہترین کارکردگی کی حامل خواتین سفراء کی چند مثالیں پیش ہیں جنہوں نے بڑی کامیابی سے مختلف برادریوں کے رجحانات اور برتاؤ میں زبردست تبدیلیوں کو ممکن بنایا ہے۔انھوں نے مزید کہا کہ ضلع تریچی کے پلمبادی بلاک کے تحت موضوع کوونڈا کروچی پنچایت سے تعلق رکھنے والی ٹی ایم گریسی ہیلن ایک ایسی ہی عمدہ مثال ہے جن کے ذریعہ ایک سووَچھ گرہی کے طور پر تبدیلی ممکن ہوئی ہے، یعنی ایک خاتون قائد کے طور پر انہوں نے اندرونِ خانہ اور بیرونِ گروپ دونوں جگہ متعدد شخصیات کو ترغیب فراہم کی ہے۔ وہ گذشتہ دو دہائیوں سے محفوظ صفائی ستھرائی کو فروغ دینے اور دیہی عوام میں ذاتی حفظانِ صحت کے طور طریقوں کو فروغ دینے سے متعلق خواتین کے سیلف ہیلپ گروپ (ایس ایچ جی) کے ایک رکن کے طور پر کوشاں ہیں۔ انہیں 2015 سے ترقی دے کر صفائی ستھرائی ماسٹر تربیت کار کا عہدہ دیا گیا ہے۔ انہوں نے اپنے ضلع میں سماجی تبدیلی لانے کے معاملے میں ایک سرگرم کردار ادا کرنے کے لیے ماڈل موٹی ویٹر کا خطاب حاصل کیا ہے۔ ایس بی ایم – جی کے پہلے مرحلے کے دوران، انہوں نے اپنے بلاک میں 1520 استفادہ کنندگان کو دو گڈھوں والے بیت الخلاء کی تعمیر کرنے کی ترغیب فراہم کی اور اس طرح انہوں نے اپنی گرام پنچایت کو کھلے میں رفع حاجت سے مبرا گرام پنچایت بنا دیا۔ اعتماد سے مالامال ان کا طریقہ کار اور مضبوطی سے اپنی بات لوگوں تک پہنچانے کے ان کے فن نے انہیں صفائی ستھرائی کے تئیں بیداری پھیلانے کے معاملے میں ایک کلیدی اثر و رسوخ کی حامل شخصیت بنا دیا جس کے توسط سے وہ اپنے گاؤں میں برتاؤ جاتی تبدیلیاں لانے کا باعث ثابت ہوئیں۔ ایس بی ایم- جی کے دوسرے مرحلے کے تحت گریسی نے اپنے موضع کے ذریعہ او ڈی ایف کی حیثیت کے حصول کے بعد اسے قائم و دائم رکھنے کے تئیں زبردست تعاون دیا۔ ریاستی سطح کی ماسٹر ٹرینر کے طور پر انہوں نے 2000 سے زائد ترغیب کاروں ، پنچایتی راج اداروں کے نمائندگان، گاؤں کی انسداد غربت کمیٹی اراکین، مختلف اضلاع کے ایس ایچ جی اراکین اور دیگر بہت سے افراد کو تربیت فراہم کی ہے۔ محترمہ ونی مہاجن نے کہا کہ محترمہ ایس ای پنگھٹے عام خاتون کی شکل میں ایک دوسری مثال ہیں، اپنے سیدھے سادے طریقہ کار، عہد بندگی اور تحمل کی بنیاد پر وہ تمام برادریوں میں تغیراتی تبدیلیاں لانے میں کامیاب رہی ہیں۔ پنگھٹے کا تعلق مہاراشٹر میں ضلع چندراپور کے کورپانا تعلقہ کے موضع پمپل گاؤں سے ہے اور انہیں 21 قبائلی مواضعات کو کھلے میں رفع حاجت سے مبرا بنانے کا اعزاز حاصل ہے۔ انہوں نے سب سے پہلے گاؤں کی سطح پر سرکاری کارکنان کے ساتھ اپنے روابط قائم کیے، اپنی بات پہنچائی اور اپنے گاؤں میں صفائی ستھرائی کے لیے کام کرنے کے لیے انہیں ترغیب فراہم کی۔ بعد ازاں انہوں نے فعال افراد و خواتین کو صفائی ستھرائی اور گاؤں کو کھلے میں رفع حاجت سے مبرا بنانے کے لیے پیغام عام کرنے کا ذریعہ بنایا اور کوشش کی کہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں لوگوں تک یہ بات پہنچ سکے۔ افراد و خواتین کی اس ٹیم کے ساتھ، پنگھٹے نے گاؤں کی سطح پر میٹنگوں کا اہتمام کیا اور عوام الناس کو بیت الخلاء تعمیر کرنے کی اہمیت اور ضرورت کی حقیقی تفہیم کرائی جس کے ذریعہ پورے عمل میں کھلے میں رفع حاجت کے طریقہ کار کو ترک کرنے میں کامیابی حاصل ہوئی۔ انہوں نے بیت الخلاء سے مبرا گھروں تک جاکر کنبوں سے ملاقات کی اور انہیں اپنے گھر میں بیت الخلاء تعمیر کرنے کے لیے رضامند کیا۔ انہوں نے تمام تر گرام پنچایتوں میں ہمہ گیر صفائی ستھرائی حالات پیدا کرنے کے لیے ٹھوس اور رقیق فضلہ انتظام ممکن بنانے کے لیے بھی کام کیا۔انھوں نے مزید کہا کہ ان خواتین قائدین نے ایس بی ایم جی کی تشہیر کو بے مثال طریقہ سے انجام تک پہنچانے میں عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے اور ان کی جیسی متعدد دیگر خواتین فی الحال سووَچھ بھارت مشن گرامین کو کامیاب بنانے کے لیے لگاتار کوشش کر رہی ہیں اور وہ اسے دیگر افراد کے ذریعہ اپنائے جانے کی ایک مثال بنانے کی خواہاں ہیں۔

Related Articles