پروفیسر محمد مزمل : ایک نامور ماہر اقتصادیات
ڈاکٹر عبید الرحمن ندوی، استاد دار العلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ
پروفیسر مزمل صاحب ہدوستان کے چند گنے چنے ماہر اقتصادیات اور ماہر تعلیمات میں سے تھے۔وہ صرف یوپی کے مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ پورے ہندوستان کے مسلمانوں کے آبروتھے۔آپ جیسی شخصیتیں ہی ہندوستان میں مسلمانوں کا نام روشن کرتی رہی ہیں۔وہ ایک مایۂ ناز اسکالر ہونے کے ساتھ ساتھ حسنِ اخلاق کے مجسم پیکر تھے۔وہ جہاں جاتے اور جہاں رہتے لوگوں کو فائدہ ہی پہونچاتے۔ یقینا وہ ’’خیر الناس من ینفع الناس‘‘(لوگوں میں سب سے بہتر وہ ہے جو لوگوں کو فائدہ پہونچائے)کی عملی تفسیر تھے۔ان کا وجود ایک انجمن کا ساتھا۔وہ اپنے اندر قوم وملت کے لیے دھڑکتاہوادل رکھتے تھے۔وہ استقلال واستقامت کے عظیم پہاڑ تھے۔ فراخ دلی اور وسیع النظری موصوف کے خمیر اور افتاد طبع میں داخل تھی۔وہ ایک ہمہ جہت شخصیت کے حامل انسان تھے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ موصوف کی شخصیت بلا استثنائے مذاہب ہر طبقے میں مقبول تھی۔وہ قلم وزبان دونوں کے بادشاہ تھے۔ان کی زبان سے طلاقت ، فصاحت اور بلاغت کا سونا ہر طرف پگھلتا دکھائی دیتا۔
وہ کیا نہ تھے۔ماہرِ اقتصادیات، نامور ماہر تعلیمات، بلند پایہ ادیب، نامور شاعر،لاثانی صحافی،ماہر منتظم،بڑے مصنف۔ایک مختصر مضمون میں ان کی ہمہ جہت شخصیت کی امتیازی خصوصیات اور گوناگوں اوصاف کو بیان کرنا ناممکن ہے۔
پروفیسر محمد مزمل کا گڑگاؤں میں حرکت قلب بند ہوجانے سے۱۴؍فروری ۲۰۲۳ء کو انتقال ہوگیا۔وہ ۷۰ سال کے تھے۔وہ اپنے چھوٹے صاحبزادے کے ساتھ گزشتہ کچھ دنوں سے دہلی میں ٹھہرے ہوئے تھے۔منگل کو وہ ایئرپورٹ پر اپنی بینگلورجانے والی فلائٹ کا انتظار کررہے تھے جب انہیں دل کا دورہ پڑا۔ایک دہائی قبل ان کی اوپن ہارٹ سرجری ہوئی تھی۔ ان کے پسماندگان میں دو فرزند ہیں۔
ان کی وفات کی خبر سوشل میڈیا پر عام ہوتے ہی پورے ملک سے تعزیتی پیغامات موصول ہونے لگے۔پروفیسر مزمل کی اچانک وفات پورے شہر کے لیے ایک صدمہ ہے۔جب وہ بے ہوش ہوئے تو انہیں فضائی عملہ نے گڑگاؤں کے ایک اسپتال میں داخل کرایاجہاں انہوں نے اپنی آخری سانس لی۔پرانی یادوں کا تذکرہ کرتے ہوئے چھتر پتی ساہو جی مہاراج یونیورسٹی ، کانپور کے سابق وائس چانسلر پروفیسر جے۔ وی۔ ویشمپیان نے فرمایا:’’وہ ’شاعری‘ کے دلدادہ تھے۔وہ تقریبًا تمام موقعوں پر شعرپڑھتے تھے۔ان کی تقریریں حکایات سے پُرہوتی تھیں۔وہ بہت یاد آئیں گے‘‘۔
ان کی پیدائش سلطان پور میں ۱۹۵۳ء میں ہوئی۔ انہوں نے ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر یونیورسٹی ، آگرہ اور مہاتما جیوتی با پھولے روہیلکھنڈ یونیورسٹی ، بریلی میں بطور وائس چانسلر خدمت انجام دی۔انہوں نے متعدد اعلیٰ تعلیمی مجالس میں بطور رکن بھی خدمت انجام دی۔
انہوں نے تحقیقاتی مجلات میں متعدد رپورٹس ، پروجیکٹس اور سوسے زائد مضامین کے علاوہ ہندی، انگریزی اور اردو میںچھہ کتابیں بھی لکھیں۔اول درجے کے علمی کیریئر کے ساتھ ساتھ، پروفیسر مزمل نے۱۹۷۴ء میں لکھنؤ یونیورسٹی سے ایم۔اے اکنامکس میں سرفہرست رہ کر طلائی تمغہ حاصل کیاتھا۔
ایک ماہر اقتصادیات پروفیسر یسویر تیاگی جو پروفیسر مزمل کے استاد بھی تھے نے فرمایا:’’جیسا کہ اس وقت کا معمول تھا، کسی کورس میں سرفہرست رہنے والے کی بظور لکچرر تقرری ہوتی تھی۔پروفیسر مزمل نے بھی ۱۹۷۴ء میں شعبۂ اقتصادیات میں بطور لیکچرر کام کرنا شروع کیا۔وہ میرے شاگرد اور رفیق دونوں تھے۔ ان کی وفات علمی دنیا کے لیے ایک بڑا نقصان ہے‘‘۔
وہ ۳۷سالوں کا وسیع تجربہ رکھتے تھے۔وہ ایک خداداد مقرر تھے خواہ طلبہ کے سامنے یا پختہ کار سامعین کے روبرو۔وہ بڑے سلیقہ منداور نظم وضبط کے حامل شخص تھے۔دراصل مزمل صاحب تجربہ کار استاد تھے۔ ان کا تدریسی اسلوب بہت ہی نرالاتھا۔ معاشیات جیسے خشک موضوع کو بھی دلچسپ اور دلنشیں طریقے سے پڑھاتے تھے۔ طلبہ ان سے اکتانے کے بجائے محظوظ ہوتے تھے۔ انہوں نے اپنے پیچھے شاندار نقوش چھوڑے۔ وہ اپنے ہرطالب علم پر خاص توجہ دیتے تھے۔انہوں نے اپنے پیچھے طلبہ کی ایک جماعت چھوڑی جو اپنے اپنے علاقے میں مصروف عمل ہیں۔اسی طرح درجنوں اسکالرس نے ان کی نگرانی میں پی ایچ ڈی مکمل کی۔
پروفیسر مزمل نے اکنامکس میں اپنی پی ایچ ڈی لکھنؤ یونیورسٹی سے کی۔ ان کا مقالہ’’Financing of Education in UP‘‘ جوبعدمیں ایک کتابی شکل میں شائع ہوا۔بعدازاں انہوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے بطور محقق زائر کے پوسٹ ڈاکٹریٹ ریسرچ’’Human Development in South Asia‘‘ پر کیا۔
حکومت اترپردیش نے انہیںاعلیٰ تعلیم میںان کی خدمات کے لیے ۲۰۱۱ ء میں سرسوتی سمان اور ۲۰۱۰ء میں شکشک شری کے اعزاز سے نوازا۔انہیں ۲۰۰۰ء میں گووند بلبھ پنت اکنامکس ایوارڈ بھی حاصل ہوا۔